وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَىٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللَّهُ بَشَرًا رَّسُولًا
اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آئی تو انہیں ایمان لانے سے صرف ان کی اس بات نے روک دیا کہ کیا اللہ نے ایک انسان کو اپنا پیغامبر (٥٩) بنا کر بھیجا ہے۔
فکری مغالطے اور کفار اکثر لوگ ایمان سے اور رسولوں کی تابعداری سے اسی بنا پر رک گئے کہ انہیں یہ سمجھ نہ آیا کہ کوئی انسان بھی رسول بن سکتا ہے ۔ «أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا » ۱؎ (10-یونس:2) ’ یعنی وہ اس پر سخت تر متعجب ہوئے اور آخر انکار کر بیٹھے اور صاف کہہ گئے کہ کیا ایک انسان ہماری رہبری کرے گا ؟ ‘ فرعون اور اس کی قوم نے بھی یہی کہا تھا کہ «فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَیْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُہُمَا لَنَا عَابِدُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:47) ’ یعنی ہم اپنے جیسے دو انسانوں پر ایمان کیسے لائیں خصوصا اس صورت میں کہ ان کی ساری قوم ہماری ماتحتی میں ہے ۔ ‘ یہی اور امتوں نے اپنے زمانے کے نبیوں سے کہا تھا کہ «إِنْ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا تُرِیدُونَ أَن تَصُدٰونَا عَمَّا کَانَ یَعْبُدُ آبَاؤُنَا فَأْتُونَا بِسُلْطَانٍ مٰبِینٍ» (14-إبراہیم:10) ’ یعنی تم تو ہم جیسے ہی انسان ہو ، سوا اس کے کچھ نہیں کہ تم ہمیں اپنے بڑوں کے معبودوں سے بہکا رہے ہو ، اچھا لاؤ کوئی زبردست ثبوت پیش کرو ۔ ‘ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں ۔ اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے لطف و کرم اور انسانوں میں سے رسولوں کے بھیجنے کی وجہ کو بیان فرماتا ہے اور اس حکمت کو ظاہر فرماتا ہے کہ اگر فرشتے رسالت کا کام انجام دیتے تو نہ ان کے پاس تم بیٹھ اٹھ سکتے نہ ان کی باتیں پوری طرح سے سمجھ سکتے ۔ انسانی رسول چونکہ تمہارے ہی ہم جنس ہوتے ہیں تم ان سے خلا ملا رکھ سکتے ہو ، ان کی عادات و اطوار دیکھ سکتے ہو اور مل جل کر ان سے اپنی زبان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہو ، ان کا عمل دیکھ کر خود سیکھ سکتے ہو ۔ جیسے فرمان ہے آیت « لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ » ۱؎ (3-آل عمران:164) الخ ۔ اور آیت میں ہے «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ » ۱؎ (9-التوبۃ:128) الخ ۔ اور آیت میں ہے « کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ » ۱؎ (2-البقرۃ:151-152) ۔ مطلب سب کا یہی ہے کہ یہ تو اللہ کا زبردست احسان ہے کہ اس نے تم میں سے ہی اپنے رسول بھیجے کہ وہ آیات الٰہی تمہیں پڑھ کر سنائیں ، تمہارے اخلاق پاکیزہ کریں اور تمہیں کتاب و حکمت سکھائیں اور جن چیزوں سے تم بےعلم تھے وہ تمہیں عالم بنا دیں ۔ پس تمہیں میری یاد کی کثرت کرنی چاہیئے تاکہ میں بھی تمہیں یاد کروں ۔ تمہیں میری شکر گزاری کرنی چاہیئے اور ناشکری سے بچنا چاہیئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ اگر زمین کی آبادی فرشتوں کی ہوتی تو بیشک ہم کسی آسمانی فرشتے کو ان میں رسول بنا کر بھیجتے چونکہ تم خود انسان ہو ہم نے اسی مصلحت سے انسانوں میں سے ہی اپنے رسول بنا کر تم میں بھیجے ۔