وَقُل رَّبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَل لِّي مِن لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا
اور آپ کہیے کہ اے میرے رب ! مجھے عمہد طریقہ سے (مدینہ) پہنچا دے (٤٩) اور مجھے عمدہ طریقہ سے (مکہ سے) رخصت کردے اور تو میرے لیے اپنے پاس سے مدد کرنے والی قوت مہیا کردے۔
حکم ہجرت مسند احمد میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف میں تھے پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور یہ آیت اتری ۔ } ۱؎ (مسند احمد:223/1) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3139،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کفار مکہ نے مشورہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیں یا نکال دیں یا قید کر لیں پس اللہ کا یہی ارادہ ہوا کہ اہل مکہ کو ان کی بداعمالیوں کا مزہ چکھا دے ۔ اس نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینے جانے کا حکم فرمایا ۔ یہی اس آیت میں بیان ہو رہا ہے ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں مدینہ میں داخل ہونا اور مکہ سے نکلنا یہی قول سب سے زیادہ مشہور ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سچائی کے داخلے سے مراد موت ہے اور سچائی سے نکلنے سے مراد موت کے بعد کی زندگی ہے اور اقوال بھی ہیں لیکن زیادہ صحیح پہلا قول ہی ہے ۔ امام ابن جریر بھی اسی کو اختیار کرتے ہیں ۔ پھر حکم ہوا کہ غلبے اور مدد کی دعا ہم سے کرو ۔ اس دعا پر اللہ تعالیٰ نے فارس اور روم کا ملک اور عزت دینے کا وعدہ فرما لیا ۔ اتنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معلوم کر چکے تھے کہ بغیر غلبے کے دین کی اشاعت اور زور ناممکن ہے ، اس لیے اللہ تعالیٰ سے مدد و غلبہ طلب کیا تاکہ کتاب اللہ اور حدود اللہ ، فرائض شرع اور قیام دین آپ کر سکیں ۔ یہ غلبہ بھی اللہ کی ایک زبردست رحمت ہے ۔ اگر یہ نہ ہوتا تو ایک دوسرے کو کھا جاتا ۔ ہر زور آور کمزور کا شکار کر لیتا ۔ «سُلْطَانًا نَّصِیرًا» سے مراد کھلی دلیل بھی ہے لیکن پہلا قول پہلا ہی ہے اس لیے کہ حق کے ساتھ غلبہ اور طاقت بھی ضروری چیز ہے تاکہ مخالفین حق دبے رہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے لوہے کے اتارنے کے احسان کو قرآن میں خاص طور پر ذکر کیا ہے «لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِیدَ فِیہِ بَأْسٌ شَدِیدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللہُ مَن یَنصُرُہُ وَرُسُلَہُ بِالْغَیْبِ» ۱؎ (57-الحدید:25) ’ یقیناً ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی دلیلیں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان [ ترازو ] نازل فرمایا تاکہ لوگ عدل پر قائم رہیں ۔ اور ہم نے لوہے کو اتارا جس میں سخت ہیبت وقوت ہے اور لوگوں کے لیے اور بھی [ بہت سے ] فائدے ہیں اور اس لیے بھی کہ اللہ جان لے کہ اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد بے دیکھے کون کرتا ہے ۔ ‘ ایک حدیث میں ہے کہ سلطنت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ بہت سی برائیوں کو روک دیتا ہے جو صرف قرآن سے نہیں رک سکتی تھیں ۔ یہ بالکل واقعہ ہے بہت سے لوگ ہیں کہ قرآن کی نصیحتیں اس کے وعدے وعید ان کو بدکاریوں سے نہیں ہٹا سکتے ۔ لیکن اسلامی طاقت سے مرعوب ہو کر وہ برائیوں سے رک جاتے ہیں ۔ پھر کافروں کی گوشمالی کی جاتی ہے کہ اللہ کی جانب سے حق آچکا ۔ سچائی اتر آئی ، جس میں کوئی شک شبہ نہیں ، قرآن ایمان نفع دینے والا سچا علم منجانب اللہ آگیا ، کفر برباد و غارت اور بے نام و نشان ہو گیا ، وہ حق کے مقابلہ میں بے دست و پا ثابت ہوا ، حق نے باطل کا دماغ پاش پاش کر دیا اور وہ نابود اور بے وجود ہوگیا ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں آئے بیت اللہ کے آس پاس تین سو ساٹھ بت تھے ، آپ اپنے ہاتھ کی لکڑی سے انہیں کچوکے دے رہے تھے اور یہی آیت«وَقُلْ جَاءَ الْحَقٰ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوقًا» (17-الإسراء:81) پڑھتے تھے اور فرماتے جاتے تھے حق آ چکا باطل نہ دوبارہ آ سکتا ہے نہ لوٹ سکتا ہے ۔ } (صحیح بخاری:2478) ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکے میں آئے ، بیت اللہ کے اردگرد تین سو ساٹھ بت تھے ، جن کی پوجا پاٹ کی جاتی تھی ، آپ نے فوراً حکم دیا کہ ان سب کو اوندھے منہ گرا دو پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (ابن ابی شیبۃ فی المصنف:534/8:حسن)