سورة الإسراء - آیت 78

أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَىٰ غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ ۖ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

آپ زوال آفتاب کے وقت سے رات کی تاریکی تک نماز قائم (٤٧) کیجیے، اور فجر کی نماز میں قرآن پڑھیئے، بیشک فجر میں قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کی حاضری کا وقت ہوتا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اوقات صلوۃ کی نشاندہی نمازوں کو وقتوں کی پابندی کے ساتھ ادا کرنے کا حکم ہو رہا ہے ، «دُلُوکِ» سے مراد غروب ہے یا زوال ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ زوال کے قول کو پسند فرماتے ہیں اور اکثر مفسرین کا قول بھی یہی ہے ۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جنہیں آپ نے چاہا دعوت کی ، کھانا کھاکر سورج ڈھل جانے کے بعد آپ میرے ہاں سے چلے ، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ، چلو یہی وقت «دُلُوکِ» شمس کا ہے } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22583:ضعیف) پس پانچوں نمازوں کا وقت اس آیت میں بیان ہو گیا ۔ « غَسَقِ »سے مراد اندھیرا ہے ۔ جو کہتے ہیں کہ «دُلُوکِ» سے مراد غروب ہے ، ان کے نزدیک ظہر عصر مغرب عشاء کا بیان تو اس میں ہے اور فجر کا بیان «وَقُرْآنَ الْفَجْرِ» میں ہے ۔ حدیث سے بہ تواتر اقوال و افعال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پانچوں نمازوں کے اوقات ثابت ہیں اور مسلمان بحمد للہ اب تک اس پر ہیں ، ہر پچھلے زمانے کے لوگ اگلے زمانے والوں سے برابر لیتے چلے آتے ہیں ۔ جیسے کہ ان مسائل کے بیان کی جگہ اس کی تفصیل موجود ہے «والْحَمْدُ لِلّٰہ» ۔ { صبح کی تلاوت قرآن پر دن اور رات کے فرشتے آتے ہیں ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3135،قال الشیخ الألبانی:صحیح) صحیح بخاری شریف میں ہے { تنہا شخص کی نماز پر جماعت کی نماز پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔ صبح کی نماز کے وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اسے بیان فرما کر راوی حدیث سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم قرآن کی آیت کو پڑھ لو وقران الفجر الخ ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:648) بخاری و مسلم میں ہے کہ { رات کے اور دن کے فرشتے تم میں برابر پے در پے آتے رہتے ہیں ، صبح کی اور عصر کی نماز کے وقت ان کا اجتماع ہو جاتا ہے ۔ تم میں جن فرشتوں نے رات گزاری وہ جب چڑھ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرماتا ہے ، باوجود یہ کہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس پہنچے تو انہیں نماز میں پایا اور واپس آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:555) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ چوکیدار فرشتے صبح کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر یہ چڑھ جاتے ہیں اور وہ ٹھیر جاتے ہیں ۔ ابن جریر کی ایک حدیث میں { اللہ تعالیٰ کے نزول فرمانے اور اس ارشاد فرمانے کا ذکر کیا ہے کہ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے استغفار کرے اور میں اسے بخشوں ۔ کوئی ہے ؟ کہ مجھ سے سوال کرے اور میں اسے دوں ۔ کوئی ہے ؟ جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں ۔ یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی ہے پس اس وقت پر اللہ تعالیٰ موجود ہوتا ہے اور رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:22595:ضعیف) پھر اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو تہجد کی نماز کا حکم فرماتا ہے ، فرضوں کا تو حکم ہے ہی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کون سی نماز افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا رات کی نماز ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:1163) تہجد کہتے ہیں نیند کے بعد کی نماز کو ، لغت میں مفسرین کی تفسیروں میں اور حدیث میں یہ موجود ہے ، آپ کی عادت بھی یہی تھی کہ سو کر اٹھتے پھر تہجد پڑھتے ۔ جیسے کہ اپنی جگہ بیان موجود ہے ۔ ہاں حسن بصری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ جو نماز عشاء کے بعد ہو ممکن ہے کہ اس سے بھی مراد سو جانے کے بعد ہو ۔ پھر فرمایا یہ زیادتی تیرے لیے ہے ۔ بعض تو کہتے ہیں ، تہجد کی نماز اوروں کے برخلاف صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فرض تھی ۔ بعض کہتے ہیں یہ خصوصیت اس وجہ سے ہے کہ آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف تھے اور امتیوں کی اس نماز کے وجہ سے ان کے گناہ دور ہو جاتے ہیں ۔ ہمارے اس حکم کی بجا آوری پر ہم تجھے اس جگہ کھڑا کریں گے کہ جہاں کھڑا ہونے پر تمام مخلوق آپ کی تعریفیں کرے گی اور خود خالق اکبر بھی ۔ کہتے ہیں کہ مقام محمود پر قیامت کے دن آپ اپنی امت کی شفاعت کے لیے جائیں گے تاکہ اس دن کی گھبراہٹ سے آپ انہیں راحت دیں ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ، لوگ ایک ہی میدان میں جمع کئے جائیں گے ، پکارنے والا اپنی آواز انہیں سنائے گا ، آنکھیں کھل جائیں گی ، ننگے پاؤں ننگے بدن ہوں گے ، جیسے کہ پیدا کئے گئے تھے ، سب کھڑے ہوں گے ، کوئی بھی بغیر اجازت الٰہی بات نہ کر سکے گا ، آواز آئے گی ، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کہیں گے « لبیک وسعدیک » ۔ اے اللہ تمام بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے ۔ برائی تیری جانب سے نہیں ۔ راہ یافتہ وہی ہے جسے تو ہدایت بخشے ، تیرا غلام تیرے سامنے موجود ہے ، وہ تیری ہی مدد سے قائم ہے ، وہ تیری ہی جانب جھکنے والا ہے ۔ تیری پکڑ سے سوائے تیرے دربار کے اور کوئی پناہ نہیں ، تو برکتوں اور بلندیوں والا ہے ، اے رب البیت تو پاک ہے ۔