سورة البقرة - آیت 204

وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَىٰ مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور کوئی آدمی (294) ایسا ہوتا ہے جس کی بات دنیاوی زندگی میں آپ کو پسند آئے گی، اور وہ اللہ کو اپنے دل کی صداقت پر گواہ بناتا ہے، حالانکہ وہ بدترین جھگڑالو ہوتا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دل بھیڑیوں کے اور کھال انسانوں کی سدی رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ منافق شخص تھا ظاہر میں مسلمان تھا اور لیکن باطن میں مخالف تھا ، (تفسیر ابن جریر الطبری:229/4) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہوں نے سیدنا خبیب رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں کی تھیں جو رجیع میں شہید کئے گئے تھے تو ان شہداء کی تعریف میں «من یشری» والی آیت اتری اور ان منافقین کی مذمت کے بارے میں آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلَیٰ مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدٰ الْخِصَامِ» ( البقرہ : 204 ) والی آیت نازل ہوئی ، بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت عام ہے تمام منافقوں کے بارے میں پہلی اور دوسری آیت ہے اور تمام مومنوں کی تعریف کے بارے میں تیسری آیت ہے ، (تفسیر ابن جریر الطبری:230/4) قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ کا قول یہی ہے اور یہی صحیح ہے ، نوف بکالی جو توراہ وانجیل کے بھی عالم تھے فرماتے ہیں کہ میں اس امت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں لکھا ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں ان کی زبانیں تو شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے ( مصبر ) سے زیادہ کڑوے ہیں لوگوں کے لیے بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن ان کے دل بھیڑیوں جیسے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیا وہ مجھ پر جرأت کرتے ہیں اور میرے ساتھ دھوکے بازیاں کرتے ہیں مجھے اپنی ذات کی قسم کہ میں ان پر وہ فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گے ، قرظی رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ منافقوں کا وصف ہے اور قرآن میں بھی موجود ہے پڑھئے آیت «وَمِنَ النَّاسِ مَن یُعْجِبُکَ قَوْلُہُ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا وَیُشْہِدُ اللہَ عَلَیٰ مَا فِی قَلْبِہِ وَہُوَ أَلَدٰ الْخِصَامِ» ( البقرہ : 204 ) سعید المقبری نے بھی جب یہ بات اور کتابوں کے حوالے سے بیان کی تو سیدنا محمد بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ یہ قرآن شریف میں بھی ہے اور اسی آیت کی تلاوت کی تھی ۔ سعید کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی ہے آپ رحمہ اللہ نے فرمایا سنیے آیت شان نزول کے اعتبار سے گو کسی کے بارے میں ہی ہو لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہوئی ہے ۔ ابن محیصن کی قرأت میں «وَیُشْہِدُ اللہَ» ہے معنی یہ ہوں گے کہ گو وہ اپنی زبان سے کچھ ہی کہے لیکن اس کے دل کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جیسے اور جگہ آیت «اِذَا جَاءَکَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْہَدُ اِنَّکَ لَرَسُوْلُ اللّٰہِ» ( 63 ۔ المنافقون : 1 ) یعنی منافق تیرے پاس آ کر تیری نبوت کی گواہی دیتے ہیں اللہ جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے لیکن اللہ کی گواہی ہے کہ یہ منافق یقینًا جھوٹے ہیں ، لیکن جمہور کی قرأت «یشھداللہ» ہے تو معنی یہ ہوئے کہ لوگوں کے سامنے تو اپنی خیانت چھپاتے ہیں لیکن اللہ کے سامنے ان کے دل کا کفر ونفاق ظاہر ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «یَّسْتَخْفُوْنَ مِنَ النَّاسِ وَلَا یَسْتَخْفُوْنَ مِنَ اللّٰہِ وَھُوَ مَعَھُمْ اِذْ یُبَیِّتُوْنَ مَا لَا یَرْضٰی مِنَ الْقَوْلِ» ( 4 ۔ النسآء : 108 ) یعنی لوگوں سے چھپاتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ لوگوں کے سامنے اسلام ظاہر کرتے ہیں اور ان کے سامنے قسمیں کھا کر باور کراتے ہیں کہ جو ان کی زبان پر ہے وہ ہی ان کے دل میں ہے ، صحیح معنی آیت کے یہی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ اور مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:233/4) ابن جریر بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ «” أَلَدٰ “» کے معنی لغت میں ہیں سخت ٹیڑھا جیسے اور جگہ ہے آیت «وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لٰدًّا» ( 19 ۔ مریم : 97 ) یہی حالت منافق کی ہے کہ وہ اپنی حجت میں جھوٹ بولتا ہے اور حق سے ہٹ جاتا ہے ، سیدھی بات چھوڑ دیتا ہے اور افترا اور بہتان بازی کرتا ہے اور گالیاں بکتا ہے ، صحیح حدیث میں ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے جھوٹ بولے جب وعدہ کرے بے وفا ئی کرے ، جب جھگڑا کرے گالیاں بکے ، (صحیح بخاری:34) ایک اور حدیث میں ہے سب سے زیادہ برا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ ہے جو سخت جھگڑالو ہو ۔ (صحیح بخاری:2457) اس کی کئی ایک سندیں ہیں ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جس طرح یہ برے اقوال والا ہے اسی طرح افعال بھی اس کے بدترین ہیں تو قول تو یہ ہے لیکن فعل اس کے سراسر خلاف ہے ، عقیدہ بالکل فاسد ہے ۔ نماز اور ہماری رفتار سعی سے مراد یہاں قصد جیسے اور جگہ ہے آیت «ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی» ( 79 ۔ النازعات : 22 ) اور فرمان ہے آیت «فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ» ( 62 ۔ الجمعہ : 9 ) یعنی جمعہ کی نماز کا قصد و ارادہ کرو ، یہاں سعی کے معنی دوڑنے کے نہیں کیونکہ نماز کے لیے دوڑ کر جانا ممنوع ہے ، حدیث شریف میں ہے جب تم نماز کے لیے آؤ بلکہ سکینت و وقار کے ساتھ آؤ ۔ (صحیح بخاری:636)