أَفَأَمِنتُمْ أَن يَخْسِفَ بِكُمْ جَانِبَ الْبَرِّ أَوْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا ثُمَّ لَا تَجِدُوا لَكُمْ وَكِيلًا
کیا تمہیں اس بات سے اطمینان ہوگیا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ خشکی کے کنارے کو دھسا دے، یا تم پر پتھروں اور کنکروں والی تند ہوا بھیج دے، پھر تم اپنا کوئی نگہبانی نہ پاؤ۔
اظہار قدرت و اختیار رب العالمین لوگوں کو ڈرا رہا ہے کہ جو تری میں تمہیں ڈبو سکتا تھا ، وہ خشکی میں دھنسانے کی قدرت بھی رکھتا ہے ۔ پھر وہاں تو صرف اسی کو پکارنا اور یہاں اس کے ساتھ اوروں کو شریک کرنا یہ کس قدر ناانصافی ہے ؟ «وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَۃً مِّن سِجِّیلٍ» ۱؎ (11-ہود:82) ’ وہ تو تم پر پتھروں کی بارش بھی برسا کر ہلاک کر سکتا ہے ‘ جیسے لوطیوں پر ہوئی تھی ، جس کا بیان خود قرآن میں کئی جگہ ہے ۔ سورۂ تبارک میں فرمایا کہ « أَأَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یَخْسِفَ بِکُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا ہِیَ تَمُورُ * أَمْ أَمِنتُم مَّن فِی السَّمَاءِ أَن یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا ۖ فَسَتَعْلَمُونَ کَیْفَ نَذِیرِ» ۱؎ (67-الملک:16-17) ’ کیا تمہیں اس اللہ کا ڈر نہیں جو آسمانوں میں ہے کہ کہیں وہ تمہیں زمین میں نہ دھنسا دے کہ یکایک زمین جنبش کرنے لگے ۔ ‘ کیا تمہیں آسمانوں والے اللہ کا خوف نہیں کہ کہیں وہ تم پر پتھر نہ برسا دے ؟ پھر جان لو کہ ڈرانے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس وقت تم نہ اپنا مددگار پاؤ گے ، نہ دستگیر ، نہ وکیل ، نہ کار ساز ، نہ نگہبان ، نہ پاسبان ۔