وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِن لَّا يَعْلَمُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے (26) کہ ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے، تو وہ کہتے ہیں (27)، کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف لوگ ایمان لائے، مومنو ! ہوشیار رہو، درحقیقت وہی لوگ بے وقوف ہیں، لیکن وہ اس حقیقت کو جان نہیں رہے ہیں
خود فریبی کے شکار لوگ مطلب یہ ہے کہ جب ان منافقوں کو صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں پر ، کتابوں اور رسولوں پر ایمان لانے ، موت کے بعد جی اٹھنے پر ، جنت دوزخ کی حقانیت کے تسلیم کرنے پر ، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری کر کے نیک اعمال بجا لانے اور برائیوں سے رکے رہنے کو کہا جاتا ہے تو یہ ملعون فرقہ ایسے ایمان والوں کو بےوقوف قرار دیتا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا ابن مسعود اور بعض دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم ، ربیع بن انس ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:293/1) «سٰفَہَاءٌ» «سَفِیْہٌ» کی جمع ہے جیسے «حکماء» «حکیم» کی اور «حلماء» «حلیم» کی ۔ جاہل ، کم عقل اور نفع نقصان کے پوری طرح نہ جاننے والے کو «سفیہ» کہتے ہیں ۔ قرآن میں اور جگہ ہے : «وَلَا تُؤْتُوا السٰفَہَاءَ أَمْوَالَکُمُ الَّتِی جَعَلَ اللہُ لَکُمْ قِیَامًا» ۲؎ (4-النساء:5) الخ یعنی ’بیوقوفوں کو اپنے وہ مال نہ دے بیٹھو جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قیام کا سبب بنایا ہے‘ ۔ عام مفسرین کا قول ہے کہ اس آیت میں «سٰفَہَاءُ» سے مراد عورتیں اور بچے ہیں ۔ ان منافقین کے جواب میں یہاں بھی خود پروردگار عالم نے جواب دیا اور تاکیداً «حصر» کے ساتھ فرمایا کہ بیوقوف تو یہی ہیں لیکن ساتھ ہی جاہل بھی ایسے ہیں کہ اپنی بیوقوفی کو جان بھی نہیں سکتے ۔ نہ اپنی جہالت و ضلالت کو سمجھ سکتے ہیں ، اس سے زیادہ ان کی برائی اور کمال اندھا پن اور ہدایت سے دوری اور کیا ہو گی ؟