مَّنِ اهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ ۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولًا
جو کوئی راہ راست (٨) کو اپناتا ہے تو وہ اپنے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو کوئی گم گشتہ راہ ہوجاتا ہے تو اس کا وبال اسی کے سر ہوتا ہے، کوئی شخص بھی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ نہیں ڈھوتا ہے، اور ہم جب تک اپنا رسول نہیں بھیج دیتے ہیں (کسی قوم کو) عذاب (٩) نہیں دیتے ہیں۔
اچھے یا برے اعمال انسان کے اپنے لئے ہیں جس نے راہ راست اختیار کی ، حق کی اتباع کی ، نبوت کی مانی اس کے اپنے حق میں اچھائی ہے اور جو حق سے ہٹا صحیح راہ سے پھرا اس کا وبال اسی پر ہے کوئی کسی کے گناہ میں پکڑا نہ جائے گا ہر ایک کا عمل اسی کے ساتھ ہے ۔ «وَإِن تَدْعُ مُثْقَلَۃٌ إِلَیٰ حِمْلِہَا لَا یُحْمَلْ مِنْہُ شَیْءٌ» (35-فاطر:18) ’ کوئی نہ ہو گا جو دوسرے کا بوجھ بٹائے ‘ اور جگہ قرآن میں ہے آیت «وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْــقَالَہُمْ وَاَثْــقَالًا مَّعَ اَثْقَالِہِمْ» ۱؎ (29-العنکبوت:13) ’ البتہ یہ اپنے بوجھ ڈھولیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ ہی اور بوجھ بھی ۔ ‘ اور آیت میں ہے«وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلٰوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ» ۱؎ (16-النحل:25) ’ ان کے بوجھ کے بھی حصے دار ہوں گے جنہیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے۔ ‘ یعنی اپنے بوجھ کے ساتھ یہ ان کے بوجھ بھی اٹھائیں گے جنہیں انہوں نے بہکا رکھا تھا ۔ لہٰذا ان دونوں مضمونوں میں کوئی نفی کا پہلو نہ سمجھا جائے اس لیے کہ گمراہ کرنے والوں پر ان کے گمراہ کرنے کا بوجھ ہے نہ کہ ان کے بوجھ ہلکے کئے جائیں گے اور ان پر لادے جائیں گے ہمارا عادل اللہ ایسا نہیں کرتا ۔ پھر اپنی ایک اور رحمت بیان فرماتا ہے کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پہنچنے سے پہلے کسی امت کو عذاب نہیں کرتا ۔ چنانچہ سورۃ تبارک میں ہے کہ «تَکَادُ تَمَیَّزُ مِنَ الْغَیْظِ ۖ کُلَّمَا أُلْقِیَ فِیہَا فَوْجٌ سَأَلَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ نَذِیرٌ * قَالُوا بَلَیٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِیرٌ فَکَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللہُ مِن شَیْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِی ضَلَالٍ کَبِیرٍ» ۱؎ (67-الملک:8-9) ’ دوزخیوں سے داروغے پوچھیں گے کہ کیا تمہارے پاس ڈرانے والے نہیں آئے تھے ؟ وہ جواب دیں گے بیشک آئے تھے لیکن ہم نے انہیں سچا نہ جانا انہیں جھٹلا دیا اور صاف کہہ دیا کہ تم تو یونہی بہک رہے ہو ، سرے سے یہ بات ہی ان ہونی ہے کہ اللہ کسی پر کچھ اتارے ۔ ‘ «وَسِیقَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِلَیٰ جَہَنَّمَ زُمَرًا ۖ حَتَّیٰ إِذَا جَاءُوہَا فُتِحَتْ أَبْوَابُہَا وَقَالَ لَہُمْ خَزَنَتُہَا أَلَمْ یَأْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنکُمْ یَتْلُونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِ رَبِّکُمْ وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ ہٰذَا ۚ قَالُوا بَلَیٰ وَلٰکِنْ حَقَّتْ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ عَلَی الْکَافِرِینَ » ۱؎ (39-الزمر:71) ’ اسی طرح جب یہ لوگ جہنم کی طرف کشاں کشاں پہنچائے جا رہے ہوں گے ، اس وقت بھی داروغے ان سے پوچھیں گے کہ کیا تم میں سے ہی رسول نہیں آئے تھے ؟ جو تمہارے رب کی آیتیں تمہارے سامنے پڑھتے ہوں اور تمہیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں ؟ یہ جواب دیں گے کہ ہاں یقیناً آئے لیکن کلمہ عذاب کافروں پر ٹھیک اترا ۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَہُمْ یَصْطَرِخُونَ فِیہَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَیْرَ الَّذِی کُنَّا نَعْمَلُ ۚ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاءَکُمُ النَّذِیرُ ۖ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّالِمِینَ مِن نَّصِیرٍ» ۱؎ (35-فاطر:37) ’ کفار جہنم میں پڑے چیخ رہے ہوں گے کہ اے اللہ ہمیں اس سے نکال تو ہم اپنے قدیم کرتوت چھوڑ کر اب نیک اعمال کریں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ کیا میں نے تمہیں اتنی لمبی عمر نہیں دی تھی تم اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے اور میں نے تم میں اپنے رسول بھی بھیجے تھے جنہوں نے خوب اگاہ کر دیا تھا اب تو عذاب برداشت کرو ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔ ‘ الغرض اور بھی بہت سی آیتوں سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجے کسی کو جہنم میں نہیں بھیجتا ۔ صحیح بخاری میں آیت «إِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:56) ’ بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک کام کرنے والوں کے نزدیک ہے ۔ ‘ کی تفسیر میں ایک لمبی حدیث مروی ہے جس میں جنت دوزخ کا کلام ہے ۔ پھر ہے کہ { جنت کے بارے میں اللہ اپنی مخلوق میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور وہ جہنم کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا جو اس میں ڈال دی جائے گی جہنم کہتی رہے گی کہ کیا ابھی اور زیادہ ہے ؟ } ۱؎ (صحیح بخاری:7449) اس کے بابت علما کی ایک جماعت نے بہت کچھ کلام کیا ہے دراصل یہ جنت کے بارے میں ہے اس لیے کہ وہ دار فضل ہے اور جہنم دار عدل ہے اس میں بغیر عذر توڑے بغیر حجت ظاہر کئے کوئی داخل نہ کیا جائے گا ۔ اس لیے حفاظ حدیث کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ راوی کو اس میں الٹا یاد رہ گیا اور اس کی دلیل بخاری مسلم کی وہ روایت ہے جس میں اسی حدیث کے آخر میں ہے کہ { دوزخ پرُ نہ ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھ دے گا اس وقت وہ کہے گی بس بس اور اس وقت بھر جائے گی اور چاورں طرف سے سمٹ جائے گی ۔ } اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہ کرے گا ۔ ہاں جنت کے لیے ایک نئی مخلوق پیدا کرے گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4850) باقی رہا یہ مسئلہ کہ کافروں کے جو نابالغ چھوٹے بچے بچپن میں مر جاتے ہیں اور جو دیوانے لوگ ہیں اور نیم بہرے اور جو ایسے زمانے میں گزرے ہیں جس وقت زمین پر کوئی رسول یا دین کی صحیح تعلیم نہیں ہوتی اور انہیں دعوت اسلام نہیں پہنچتی اور جو بالکل بڈھے حواس باختہ ہوں ان کے لیے کیا حکم ہے ؟ اس بارے میں شروع سے اختلاف چلا آ رہا ہے ۔ ان کے بارے میں جو حدیثیں ہیں وہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں پھر ائمہ کا کلام بھی مختصرا ذکر کروں گا ، اللہ تعالیٰ مدد کرے ۔ پہلی حدیث مسند احمد میں ہے { چار قسم کے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے ایک تو بالکل بہرا آدمی جو کچھ بھی نہیں سنتا اور دوسرا بالکل احمق پاگل آدمی جو کچھ بھی نہیں جانتا ، تیسرا بالکل بڈھا پھوس آدمی جس کے حواس درست نہیں ، چوتھے وہ لوگ جو ایسے زمانوں میں گزرے ہیں جن میں کوئی پیغمبر یا اس کی تعلیم موجود نہ تھی ۔ بہرا تو کہے گا اسلام آیا لیکن میرے کان میں کوئی آواز نہیں پہنچی ، دیوانہ کہے گا کہ اسلام آیا لیکن میری حالت تو یہ تھی کہ بچے مجھ پر مینگنیاں پھینک رہے تھے اور بالکل بڈھے بے حواس آدمی کہیں گے کہ اسلام آیا لیکن میرے ہوش حواس ہی درست نہ تھے جو میں سمجھ کر سکتا رسولوں کے زمانوں کا اور ان کی تعلیم کو موجود نہ پانے والوں کا قول ہو گا کہ نہ رسول آئے نہ میں نے حق پایا پھر میں کیسے عمل کرتا ؟ اللہ تعالیٰ ان کی طرف پیغام بھیجے گا کہ اچھا جاؤ جہنم میں کود جاؤ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر وہ فرماں برداری کر لیں اور جہنم میں کود پڑیں تو جہنم کی آگ ان پر ٹھنڈک اور سلامتی ہو جائے گی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:24/4،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور روایت میں ہے کہ { جو کود پڑیں گے ان پر تو سلامتی اور ٹھنڈک ہو جائے گی اور جو رکیں گے انہیں حکم عدولی کے باعث گھسیٹ کی جہنم میں ڈال دیا جائے گا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:841،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ابن جریر میں اس حدیث کے بیان کے بعد ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں کلام اللہ کی آیت «وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا» (17-الإسراء:15) الخ پڑھ لو ۔ دوسری حدیث ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ ہم نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ ابو حمزہ مشرکوں کے بچوں کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ گنہگار نہیں جو دوزخ میں عذاب کئے جائیں اور نیکوکار بھی نہیں جو جنت میں بدلہ دئے جائیں ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4090) تیسری حدیث ابو یعلیٰ میں ہے کہ { ان چاورں کے عذر سن کر جناب باری فرمائے گا کہ اوروں کے پاس تو میں اپنے رسول بھیجتا تھا لیکن تم سے میں آپ کہتا ہوں کہ جاؤ اس جہنم میں چلے جاؤ جہنم میں سے بھی فرمان باری سے ایک گردن اونچی ہو گی اس فرمان کو سنتے ہی وہ لوگ جو نیک طبع ہیں فوراً دوڑ کر اس میں کود پڑیں گے اور جو بد باطن ہیں وہ کہیں گے اللہ پاک ہم اسی سے بچنے کے لیے تو یہ عذر معذرت کر رہے تھے اللہ فرمائے گا جب تم خود میری نہیں مانتے تو میرے رسولوں کی کیا مانتے اب تمہارے لیے فیصلہ یہی ہے کہ تم جہنمی ہو اور ان فرمانبرداروں سے کہا جائے گا کہ تم بیشک جنتی ہو تم نے اطاعت کر لی ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:4224:ضعیف) چوتھی حدیث مسند حافظ ابو یعلیٰ موصلی میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہے ۔ پھر مشرکین کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے ساتھ ، تو کہا گیا یا رسول اللہ انہوں نے کوئی عمل تو نہیں کیا آپ نے فرمایا ہاں لیکن اللہ انہیں بخوبی جانتا ہے ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:10290:ضعیف) پانچویں حدیث ۔ حافظ ابوبکر احمد بن عمر بن عبدالخالق بزار رحمہ اللہ اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ { قیامت کے دن اہل جاہلیت اپنے بوجھ اپنی کمروں پر لادے ہوئے آئیں گے اور اللہ کے سامنے عذر کریں گے کہ نہ ہمارے پاس تیرے رسول پہنچے نہ ہمیں تیرا کوئی حکم پہنچا اگر ایسا ہوتا تو ہم جی کھول کر مان لیتے اللہ تعالیٰ فرمائے گا اچھا اب اگر حکم کروں تو مان لو گے ؟ وہ کہیں گے ہاں ہاں بیشک بلا چون و چرا ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا اچھا جاؤ جہنم کے پاس جا کر اس میں داخل ہو جاؤ یہ چلیں گے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ جائیں گے اب جو اس کا جوش اور اس کی آواز اور اس کے عذاب دیکھیں گے تو واپس آ جائیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہمیں اس سے تو بچا لے ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا دیکھو تم اقرار کر چکے ہو کہ میری فرمانبرداری کرو گے پھر یہ نافرمانی کیوں ؟ وہ کہیں گے اچھا اب اسے مان لیں گے اور کر گزریں گے ۔ چنانچہ ان سے مضبوط عہد و پیمان لیے جائیں گے ، پھر یہی حکم ہو گا یہ جائیں گے اور پھر خوفزدہ ہو کر واپس لوٹیں گے اور کہیں گے اے اللہ ہم تو ڈر گئے ہم سے تو اس فرمان پر کار بند نہیں ہوا جاتا ۔ اب جناب باری فرمائے گا تم نافرمانی کر چکے اب جاؤ ذلت کے ساتھ جہنمی بن جاؤ ۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر پہلی مرتبہ ہی یہ بحکم الٰہی اس میں کود جاتے تو آتش دوزخ ان پر سرد پڑ جاتی اور ان کا ایک رواں بھی نہ جلاتی ۔ } ۱؎ (مسند بزار:3433:ضعیف) امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کا متن معروف نہیں ایوب سے صرف عباد ہی روایت کرتے ہیں اور عباد سے صرف ریحان بن سعید روایت کرتے ہیں ۔ میں کہتا ہوں اسے ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ بتلایا ہے ۔ یحییٰ بن معین اور نسائی رحمہ اللہ علیہم کہتے ہیں ان میں کوئی ڈر خوف کی بات نہیں ۔ ابوداؤد رحمہ اللہ نے ان سے روایت نہیں کی ۔ ابوحاتم رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ شیخ ہیں ان میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی حدیثیں لکھائی جاتی ہیں اور ان سے دلیل نہیں لی جاتی ۔ چھٹی حدیث ۔ امام محمد بن یحییٰ ذہلی رحمہ اللہ روایت لائے ہیں کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے خالی زمانے والے اور مجنون اور بچے اللہ کے سامنے آئیں گے ایک کہے گا میرے پاس تیری کتاب پہنچی ہی نہیں ، مجنوں کہے گا میں بھلائی برائی کی تمیز ہی نہیں رکھتا ۔ بچہ کہے گا میں نے سمجھ بوجھ کا بلوغت کا زمانہ پایا ہی نہیں ۔ اسی وقت ان کے سامنے آگ شعلے مارنے لگے گی ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے ہٹا دو تو جو لوگ آئندہ نیکی کرنے والے تھے وہ تو اطاعت گزار ہو جائیں گے اور جو اس عذر کے ہٹ جانے کے بعد بھی نافرمانی کرنے والے تھے وہ رک جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا جب تم میری ہی براہ راست نہیں مانتے تو میرے پیغمبروں کی کیا مانتے ؟ ۱؎ (مسند بزار:2176:ضعیف) ساتویں حدیث ۔ انہی تین شخصوں کے بارے میں اوپر والی احادیث کی طرح ہے ۔ { اس میں یہ بھی ہے کہ جب یہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس میں سے ایسے شعلے بلند ہوں گے کہ یہ سمجھ لیں گے کہ یہ تو ساری دنیا کو جلا کر بھسم کر دیں گے دوڑتے ہوئے واپس لوٹ آئیں گے پھر دوبارہ یہی ہو گا اللہ عز و جل فرمائے گا ۔ تمہاری پیدائش سے پہلے ہی تمہارے اعمال کی خبر تھی میں نے علم ہوتے ہوئے تمہیں پیدا کیا تھا اسی علم کے مطابق تم ہو ۔ اے جہنم انہیں دبوچ لے چنانچہ اسی وقت آگ انہیں لقمہ بنا لے گی ۔ ۱؎ (طبرانی کبیر:83/20:ضعیف جداً) آٹھویں حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت ان کے اپنے قول سمیت پہلے بیان ہو چکی ہے ۔ بخاری و مسلم میں آپ ہی سے مروی ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ہر بچہ دین اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں “ ۔ جیسے کہ بکری کے صحیح سالم بچے کے کان کاٹ دیا کرتے ہیں ۔ لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر وہ بچپن میں ہی مر جائے تو ؟ آپ نے فرمایا اللہ کو ان کے اعمال کی صحیح اور پوری خبر تھی ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:6599) مسند کی حدیث میں ہے کہ { مسلمان بچوں کی کفالت جنت میں ابراہیم علیہ السلام کے سپرد ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:326/2:قال الشیخ الألبانی:حسن) صحیح مسلم میں حدیث قدسی ہے کہ { میں نے اپنے بندوں کو موحد یکسو مخلص بنایا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) ایک روایت میں اس کے ساتھ ہی مسلمان کا لفظ بھی ہے ۔ نویں حدیث حافظ ابوبکر برقانی اپنی کتاب المستخرج علی البخاری میں روایت لائے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے لوگوں نے باآواز بلند دریافت کیا کہ مشرکوں کے بچے بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکوں کے بچے بھی ۔ طبرانی کی حدیث میں ہے کہ مشرکوں کے بچے اہل جنت کے خادم بنائے جائیں گے ۔ } ۱؎ (مسند بزار:2172:ضعیف) دسویں حدیث مسند احمد میں ہے کہ { ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں کون کون جائیں گے ۔ آپ نے فرمایا نبی اور شہید بچے اور زندہ درگور کئے ہوئے بچے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:409/5:صحیح) علماء میں سے بعض کا مسلک تو یہ ہے کہ ان کے بارے میں ہم توقف کرتے ہیں ، خاموش ہیں ان کی بھی گزر چکی ۔ بعض کہتے ہیں یہ جنتی ہیں ان کی دلیل معراج والی وہ حدیث ہے جو صحیح بخاری شریف میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے اس خواب میں ایک شیخ کو ایک جنتی درخت تلے دیکھا ، جن کے پاس بہت سے بچے تھے ۔ سوال پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں اور ان کے پاس یہ بچے مسلمانوں کی اور مشرکوں کی اولاد ہیں ، لوگوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کی اولاد بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں مشرکین کی اولاد بھی ۔ بعض علماء فرماتے ہیں یہ دوزخی ہیں کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ وہ اپنے باپوں کے ساتھ ہیں ۔ بعض علماء کہتے ہیں ان کا امتحان قیامت کے میدانوں میں ہو جائے گا ۔ اطاعت گزار جنت میں جائیں گے ، اللہ اپنے سابق علم کا اظہار کر کے پھر انہیں جنت میں پہنچائے گا اور بعض بوجہ اپنی نافرمانی کے جو اس امتحان کے وقت ان سے سرزد ہو گی اور اللہ تعالیٰ اپنا پہلا علم آشکارا کر دے گا ۔ اس وقت انہیں جہنم کا حکم ہو گا ۔ اس مذہب سے تمام حدیثیں اور مختلف دلیلیں جمع ہو جاتی ہیں اور پہلے کی حدیثیں جو ایک دوسری کو تقویت پہنچاتی ہیں اس معنی کی کئی ایک ہیں ۔ شیخ ابوالحسن علی بن اسماعیل اشعری رحمہ اللہ نے یہی مذہب اہل سنت و الجماعت کا نقل فرمایا ہے ۔ اور اسی کی تائید امام بہیقی رحمہ اللہ نے کتاب الاعتقاد میں کی ہے ۔ اور بھی بہت سے محققین علماء اور پرکھ والے حافظوں نے یہی فرمایا ہے ۔ شیخ ابو عمر بن عبد البر رحمہ اللہ عزی نے امتحان کی بعض روایتیں بیان کر کے لکھا ہے اس بارے کی حدیثیں قوی نہیں ہیں اور ان سے جحت ثابت نہیں ہوتی اور اہل علم ان کا انکار کرتے ہیں اس لیے کہ آخرت دار جزا ہے ، دار عمل نہیں ہے اور نہ دار امتحان ہے ۔ اور جہنم میں جانے کا حکم بھی تو انسانی طاقت سے باہر کا حکم ہے اور اللہ کی یہ عادت نہیں ۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے اس قول کا جواب بھی سن لیجئے ، اس بارے جو حدیثیں ہیں ، ان میں سے بعض تو بالکل صحیح ہیں ۔ جیسے کہ ائمہ علماء نے تصریح کی ہے ۔ بعض حسن ہیں اور بعض ضعیف بھی ہیں لیکن وہ بوجہ صحیح اور حسن احادیث کے قوی ہو جاتی ہیں ۔ اور جب یہ ہے تو ظاہر ہے کہ یہ حدیثیں حجت و دلیل کے قابل ہو گئیں ۔ اب رہا امام صاحب کا یہ فرمان کہ آخرت دار عمل اور دار امتحان نہیں وہ دار جزا ہے ۔ یہ بیشک صحیح ہے لیکن اس سے اس کی نفی کیسے ہو گئی کہ قیامت کے مختلف میدانوں کی پیشیوں میں جنت دوزخ میں داخلے سے پہلے کوئی حکم احکام نہ دئے جائیں گے ۔ شیخ ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ نے تو مذہب اہلسنت والجماعت کے عقائد میں بچوں کے امتحان کو داخل کیا ہے ۔ مزید براں آیت قرآن آیت «یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السٰجُوْدِ» ۱؎ (68-القلم:42) اس کی کھلی دلیل ہے کہ منافق و مومن کی تمیز کے لیے پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کا حکم ہو گا ۔ صحاح کی احادیث میں ہے کہ { مومن تو سجدہ کر لیں گے اور منافق الٹے منہ پیٹھ کے بل گر پڑیں گے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4919) بخاری و مسلم میں اس شخص کا قصہ بھی ہے { جو سب سے آخر میں جہنم سے نکلے گا کہ وہ اللہ سے وعدے وعید کرے گا سوا اس سوال کے اور کوئی سوال نہ کرے گا اس کے پورا ہونے کے بعد وہ اپنے قول قرار سے پھر جائے گا اور ایک اور سوال کر بیٹھے گا وغیرہ ۔ آخر میں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ابن آدم تو بڑا ہی عہد شکن ہے اچھا جا ، جنت میں چلا جا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:806) پھر امام صاحب کا یہ فرمانا کہ انہیں ان کی طاقت سے خارج بات کا یعنی جہنم میں کود پڑنے کا حکم کیسے ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ یہ بھی صحت حدیث میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتا ۔ خود امام صاحب اور تمام مسلمان مانتے ہیں کہ پل صراط پر سے گزرنے کا حکم سب کو ہو گا جو جہنم کی پیٹھ پر ہو گا اور تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہو گا ۔ مومن اس پر سے اپنی نیکیوں کے اندازے سے گزر جائیں گے ۔ بعض مثل بجلی کے ، بعض مثل ہوا کے ، بعض مثل گھوڑوں کے ، بعض مثل اونٹوں کے ، بعض مثل بھاگنے والوں کے ، بعض مثل پیدل جانے والوں کے ، بعض گھٹنوں کے بل سرک سرک کر ، بعض کٹ کٹ کر جہنم میں پڑیں گے ۔ پس جب یہ چیز وہاں ہے تو انہیں جہنم میں کود پڑنے کا حکم تو اس سے کوئی بڑا نہیں بلکہ یہ اس سے بڑا اور بہت بھاری ہے ۔ اور سنئے حدیث میں ہے کہ { دجال کے ساتھ آگ اور باغ ہو گا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ جسے آگ دیکھ رہے ہیں اس میں سے پی لیں وہ ان کے لیے ٹھنڈک اور سلامتی کی چیز ہے ۔ } پس یہ اس واقعہ کی صاف نظیر ہے ۔ اور لیجئے بنو اسرائیل نے جب گو سالہ پرستی کی اس کی سزا میں اللہ نے حکم دیا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں ایک ابر نے آکر انہیں ڈھانپ لیا اب جو تلوار چلی تو صبح ہی صبح ابر پھٹنے سے پہلے ان میں سے ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے تھے ۔ بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کیا ، کیا یہ حکم اس حکم سے کم تھا ؟ کیا اس کا عمل نفس پر گراں نہیں ؟ پھر تو اس کی نسبت بھی کہہ دینا چاہیئے تھے کہ اللہ کسی نفس کو اس کی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ ان تمام بحثوں کے صاف ہونے کے بعد اب سنئے ۔ مشرکین کے بچپن میں مرے ہوئے بچوں کی بابت بھی بہت سے اقوال ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ سب جنتی ہیں ، ان کی دلیل وہی معراج میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس مشرکوں اور مسلمانوں کے بچوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا ہے اور دلیل ان کی مسند کی وہ روایت ہے جو پہلے گزر چکی کہ آپ نے فرمایا بچے جنت میں ہیں ۔ ہاں امتحان ہونے کی جو حدیثیں گزریں وہ ان میں سے مخصوص ہیں ۔ پس جن کی نسبت رب العالمین کو معلوم ہے کہ وہ مطیع اور فرمانبردار ہیں ان کی روحیں عالم برزخ میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس ہیں اور مسلمانوں کے بچوں کی روحیں بھی ۔ اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ قبول کرنے والی نہیں ، ان کا امر اللہ کے سپرد ہے ، وہ قیامت کے دن جہنمی ہوں گے ۔ جیسے کہ احادیث امتحان سے ظاہر ہے ۔ امام اشعری رحمہ اللہ نے اسے اہل سنت سے نقل کیا ہے اب کوئی تو کہتا ہے کہ یہ مستقل طور پر جنتی ہیں کوئی کہتا ہے یہ اہل جنت کے خادم ہیں ۔ گو ایسی حدیث داؤد طیالسی میں ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مشرکوں کے بچے بھی اپنے باپ دادوں کے ساتھ جہنم میں جائیں گے جیسے کہ مسند وغیرہ کی حدیث میں ہے کہ { وہ اپنے باپ دادوں کے تابعدار ہیں ۔ یہ سن کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا بھی کہ باوجود بےعمل ہونے کے ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا عمل کرنے والے تھے ، اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:84/6:صحیح) ابوداؤد میں ہے { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ۔ “ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسلمانوں کی اولاد کی بابت سوال کیا تو آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا مشرکوں کی اولاد ؟ آپ نے فرمایا وہ اپنے باپ دادوں کے ساتھ ہیں ۔ میں نے کہا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی عمل کیا ہو ؟ آپ نے فرمایا وہ کیا کرتے یہ اللہ کے علم میں ہے ۔ } (سنن ابوداود:4712،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند کی حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تو چاہے تو میں ان کا رونا پیٹنا اور چیخنا چلانا بھی تجھے سنا دوں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:208/6:ضعیف) امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے روایت لائے ہیں کہ { سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دو بچوں کی نسبت سوال کیا جو جاہلیت کے زمانے میں فوت ہوئے تھے آپ نے فرمایا وہ دونوں دوزخ میں ہیں جب آپ نے دیکھا کہ بات انہیں بھاری پڑی ہے تو آپ نے فرمایا اگر تم ان کی جگہ دیکھ لیتیں تو تم خود ان سے بیزار ہو جاتیں ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا اچھا جو بچہ آپ سے ہوا تھا ؟ آپ نے فرمایا سنو مومن اور ان کی اولاد جنتی ہے اور مشرک اور ان کی اولاد جہنمی ہے ۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی «وَالَّذِینَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ» ۱؎ (52-الطور:21) ’ جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے ان کی اتباع ایمان کے ساتھ کی ۔ ہم ان کی اولاد انہی کے ساتھ ملا دیں گے ۔ ‘ } ۱؎ (مسند عبد بن حمید:135/1:ضعیف) یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد میں محمد بن عثمان راوی مجہول الحال ہیں اور ان کے شیخ زاذان نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابو داؤد میں حدیث ہے کہ { زندہ درگور کرنے والی اور زندہ درگور کردہ شدہ دوزخی ہیں ۔ } ابوداؤد میں یہ سند حسن مروی ہے { سیدنا سلمہ بن قیس اشجعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اپنے بھائی کو لیے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ماں جاہلیت کے زمانے میں مر گئی ہیں ، وہ صلہ رحمی کرنے والی اور مہمان نواز تھیں ، ہماری ایک نابالغ بہن انہوں نے زندہ دفن کر دی تھی ۔ آپ نے فرمایا ایسا کرنے والی اور جس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے دونوں دوزخی ہیں یہ اور بات ہے کہ وہ اسلام کو پالے اور اسے قبول کر لے ۔} تیسرا قول یہ ہے کہ ان کے بارے میں توقف کرنا چاہیئے کوئی فیصلہ کن بات یکطرفہ نہ کہنی چاہیئے ۔ ان کا اعتماد آپ کے اس فرمان پر ہے کہ ان کے اعمال کا صحیح اور پورا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ بخاری میں ہے کہ مشرکوں کی اولاد کے بارے میں جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے انہی لفظوں میں جواب دیا تھا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1383) بعض بزرگ کہتے ہیں کہ یہ اعراف میں رکھے جائیں گے ۔ اس قول کا نتیجہ یہی ہے کہ یہ جنتی ہیں اس لیے کہ اعراف کوئی رہنے سہنے کی جگہ نہیں یہاں والے بالآخر جنت میں ہی جائیں گے ۔ جیسے کہ سورۃ الاعراف کی تفسیر میں ہم اس کی تفسیر کر آئے ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ یہ تو تھا اختلاف مشرکوں کی اولاد کے بارے میں لیکن مومنوں کی نابالغ اولاد کے بارے میں تو علما کا بلا اختلاف یہی قول ہے کہ وہ جنتی ہیں ۔ جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا قول ہے اور یہی لوگوں میں مشہور بھی ہے اور انشاءاللہ عز و جل ہمیں بھی یہی امید ہے ۔ لیکن بعض علماء سے منقول ہے کہ وہ ان کے بارے میں توقف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب بچے اللہ کی مرضی اور اس کی چاہت کے ماتحت ہیں ۔ اہل فقہ اور اہل حدیث کی ایک جماعت اس طرف بھی گئی ہے ۔ موطا امام مالک کی ابواب القدر کی احادیث میں بھی کچھ اسی جیسا ہے گو امام مالک رحمہ اللہ کا کوئی فیصلہ اس میں نہیں ۔ لیکن بعض متاخرین کا قول ہے کہ مسلمان بچے تو جنتی ہیں اور مشرکوں کے بچے مشیت الٰہی کے ماتحت ہیں ۔ ابن عبد البر نے اس بات کو اسی وضاحت سے بیان کیا ہے لیکن یہ قول غریب ہے ۔ کتاب التذکرہ میں امام قرطبی رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس بارے میں ان بزرگوں نے ایک حدیث یہ بھی وارد کی ہے کہ { انصاریوں کے ایک بچے کے جنازے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا تو ماں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس بچے کو مرحبا ہو یہ تو جنت کی چڑیا ہے نہ برائی کا کوئی کام کیا نہ اس زمانے کو پہنچا تو آپ نے فرمایا اس کے سوا کچھ اور بھی اے عائشہ [ رضی اللہ عنہا ] ؟ سنو اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ اپنے باپ کی پیٹھ میں تھے ۔ اسی طرح اس نے جہنم کو پیدا کیا ہے اور اس میں جلنے والے پیدا کئے ہیں حالانکہ وہ ابھی اپنے باپ کی پیٹھ میں ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2662) مسلم اور سنن کی یہ حدیث ہے ۔ چونکہ یہ مسئلہ صحیح دلیل بغیر ثابت نہیں ہو سکتا اور لوگ اپنی بے علمی کے باعث بغیر ثبوت شارع کے اس میں کلام کرنے لگے ہیں ۔ اس لیے علماء کی ایک جماعت نے اس میں کلام کرنا ہی ناپسند رکھا ہے ۔ سیدنا ابن عباس ، سیدنا قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہم وغیرہ کا مذہب یہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تو منبر پر خطبے میں فرمایا تھا کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت کا کام ٹھیک ٹھاک رہے گا جب تک کہ یہ بچوں کے بارے میں اور تقدیر کے بارے میں کچھ کلام نہ کریں گے ۔ } ۱؎ (صحیح ابن حبان:6724) امام ابن حبان کہتے ہیں مراد اس سے مشرکوں کے بچوں کے بارے میں کلام نہ کرنا ہے ۔ اور کتابوں میں یہ روایت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے اپنے قول سے موقوفاً مروی ہے ۔