وَلَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مِّنْهُمْ فَكَذَّبُوهُ فَأَخَذَهُمُ الْعَذَابُ وَهُمْ ظَالِمُونَ
اور ان کے پاس انہی میں سے ایک رسول آیا، تو انہوں نے اسے جھٹلا دیا تو عذاب نے انہیں اس حال میں پکڑ لیا کہ وہ ظلم کر رہے تھے۔
. انہوں نے اللہ کے رسول کی نہ مانی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کمر کس لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے سات قحط سالیوں کی بد دعا دی ۔ جیسی یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں تھی ۔ اس قحط سالی میں انہوں نے اونٹ کے خون میں لتھڑے ہوئے بال تک کھائے ۔ امن کے بعد خوف آیا ۔ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر سے خوف زدہ رہنے لگے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دن دگنی ترقی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکروں کی کثرت کا سنتے اور سہمے جاتے تھے یہاں تک کہ بالآخر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شہر مکہ پر چڑھائی کی اور اسے فتح کر کے وہاں قبضہ کر لیا ۔ یہ ان کی بد اعمالیوں کا ثمرہ تھا کیونکہ یہ ظلم و زیادتی پر اڑے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرتے رہے تھے ۔ جسے اللہ تعالیٰ نے ان میں خود ان میں سے ہی بھیجا تھا جس احسان کا بیان آیت «لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ» (3-آل عمران:164) الخ ، میں فرمایا ہے اور اسی کا بیان آیت «فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ٽ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا» ۱؎ (65-الطلاق:10) الخ ، میں ہے اور اسی معنی کی آیت «کَمَا أَرْسَلْنَا فِیکُمْ رَسُولًا مِّنکُمْ یَتْلُو عَلَیْکُمْ آیَاتِنَا وَیُزَکِّیکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُم مَّا لَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُونَ فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ» ۱؎ (2-البقرۃ:151-152) میں ہے ۔ اس لطیفے کو بھی نہ بھولئے کہ جیسے کفر کی وجہ سے امن کے بعد خوف آیا اور فراخی کے بعد بھوک آئی ایمان کی وجہ سے خوف کے بعد امن ملا اور بھوک کے بعد حکومت ، سرداری امارت اور امامت ملی ۔ «فسبحانہ ما اعظم شانہ» ۔ سلیم بن عتر کہتے ہیں ہم ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا زوجہ محترمہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج سے لوٹتے ہوئے آرہے تھے اس وقت مدینہ شریف میں خلیفتہ المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہا گھرے ہوئے تھے ۔ مائی صاحبہ رضی اللہ عنہا اکثر راہ چلتوں سے ان کی بابت دریافت فرمایا کرتی تھیں ۔ دو سواروں کو جاتے ہوئے دیکھ کر آدمی بھیجا کہ ان سے خلیفتہ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حال پوچھو ۔ انہوں نے خبر دی کہ افسوس آپ رضی اللہ عنہ شہید کر دیئے گئے ۔ اسی وقت آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ” اللہ کی قسم یہی وہ شہید ہے جس کی بات اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت «وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ آمِنَۃً مٰطْمَئِنَّۃً یَأْتِیہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللہِ فَأَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ» “ ۱؎ (16-النحل:112) ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:655/7:) عبیداللہ بن مغیرہ کے استاد کا بھی یہی قول ہے ۔