وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اور جب اللہ سے عہد و پیمان (٥٧) کرو تو اسے پورا کرو اور قسموں کو پختہ کرلینے کے بعد نہ توڑو، حالانکہ تم نے اس پر اللہ کو گواہ بنایا تھا، بیشک اللہ تمہارے افعال کو خوب جانتا ہے۔
عہد و پیمان کی حفاظت اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عہد و پیمان کی حفاظت کریں قسموں کو پورا کریں ۔ توڑیں نہیں ۔ قسموں کو نہ توڑنے کی تاکید کی اور آیت میں فرمایا کہ «وَلَا تَجْعَلُوا اللہَ عُرْضَۃً لِّأَیْمَانِکُمْ أَن تَبَرٰوا وَتَتَّقُوا» ۱؎ (2-البقرۃ:224) ’ اپنی قسموں کا نشانہ اللہ کو نہ بناؤ ‘ ۔ اس سے بھی قسموں کی حفاظت کرنے کی تاکید مقصود ہے اور آیت میں ہے کہ «ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ أَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَیْمَانَکُمْ» ۱؎ (5-المائدہ:89) ’ قسم توڑنے کا کفارہ ہے قسموں کی پوری حفاظت کرو ‘ ۔ پس ان آیتوں میں یہ حکم ہے ، اور بخاری و مسلم کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { واللہ میں جس چیز پر قسم کھالوں اور پھر اس کے خلاف میں بہتری دیکھوں تو ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور اس نیک کام کو کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6623) تو مندرجہ بالا آیتوں اور احادیث میں کچھ فرق نہ سمجھا جائے وہ قسمیں اور عہد و پیمان جو آپس کے معاہدے اور وعدے کے طور پر ہوں ان کا پورا کرنا تو بیشک بے حد ضروری ہے اور جو قسمیں رغبت دلانے یا روکنے کے لیے زبان سے نکل جائیں ، وہ بیشک کفارہ دے کر ٹوٹ سکتی ہیں ۔ پس اس آیت میں مراد جاہلیت کے زمانے جیسی قسمیں ہیں ۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اسلام میں دو جماعتوں کی آپس میں ایک رہنے کی قسم کوئی چیز نہیں ہاں جاہلیت میں ایسی امداد و اعانت کی جو قسمیں آپس میں ہوچکی ہیں اسلام ان کو اور مضبوط کرتا ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2530) اس حدیث کے پہلے جملے کے یہ معنی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں کہ ایک برادری والے دوسری برادری والوں سے عہد و پیمان کریں کہ ہم تم ایک ہیں ، راحت و رنج میں شریک ہیں وغیرہ ۔ کیونکہ رشتہ اسلام تمام مسلمانوں کو ایک برادری کا حکم دیتا دیتا ہے ۔ مشرق مغرب کے مسلمان ایک دوسرے کے ہمدرد و غم خوار ہیں ۔ بخاری مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ { سیدنا انس رضی اللہ عنہا کے گھر میں رسول اللہ علیہ افضل التسلیم نے انصار و مہاجرین میں باہم قسمیں اٹھوائیں } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6083) اس سے یہ ممنوع بھائی بندی مراد نہیں یہ تو بھائی چارہ تھا جس کی بنا پر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے ۔ آخر میں یہ حکم منسوخ ہوگیا اور ورثہ قریبی رشتے داروں سے مخصوص ہو گیا ۔ کہتے ہیں اس فرمان الٰہی سے مطلب ان مسلمانوں کو اسلام پر جمع رہنے کا حکم دینا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام کی پابندی کا اقرار کرتے تھے ۔ تو انہیں فرماتا ہے کہ ایسی تاکیدی قسم اور پورے عہد کے بعد کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کی جماعت کی کمی اور مشرکوں کی جماعت کی کثرت دیکھ کر تم اسے توڑ دو ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:21871:) مسند احمد میں ہے کہ ” جب یزید بن معاویہ کی بیعت لوگ توڑنے لگے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے تمام گھرانے کے لوگوں کو جمع کیا اور اللہ کی تعریف کر کے امابعد کہہ کر فرمایا ” ہم نے یزید کی بیعت اللہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت پر کی ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { ہر غدار کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور اعلان کیا جائے گا کہ یہ غدار ہے فلاں بن فلاں کا } ۔ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کے بعد سب سے بڑا اور سب سے برا غدر یہ ہے کہ اللہ اور رسول کی بیعت کسی کے ہاتھ پر کر کے پھر توڑ دینا یاد رکھو تم میں سے کوئی یہ برا کام نہ کرے اور اس بارے میں حد سے نہ بڑھے ورنہ مجھ میں اور اس میں جدائی ہے “ ۔ ۱؎ (مسند احمد:48/2:صحیح) مسند احمد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جو شخص کسی مسلمان بھائی سے کوئی شرط کرے اور اسے پورا کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو وہ مثل اس شخص کے ہے جو اپنے پڑوسی کو امن دینے کے بعد بے پناہ چھوڑ دے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:404/5:ضعیف) پھر انہیں دھمکاتا ہے جو عہد و پیمان کی حفاظت نہ کریں کہ ان کے اس فعل سے اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے ۔ مکہ میں ایک عورت تھی جس کی عقل میں فتور تھا سوت کاتنے کے بعد ، ٹھیک ٹھاک اور مضبوط ہو جانے کے بعد بیوجہ توڑ تاڑ کر پھر ٹکڑے کر دیتی ۔ یہ تو اس کی مثال ہے جو عہد کو مضبوط کر کے پھر توڑ دے ۔ یہی بات ٹھیک ہے اب اسے جانے دیجئیے کہ واقعہ میں کوئی ایسی عورت تھی بھی یا نہیں جو یہ کرتی ہو نہ کرتی ہو یہاں تو صرف مثال مقصود ہے ۔ «أَنکَاثًا» کے معنی ٹکڑے ٹکڑے ہے ۔ ممکن ہے کہ یہ «نَقَضَتْ غَزْلَہَا» کا اسم مصدر ہو ۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بدل ہو «کَانَ» کی خبر کا یعنی «أَنْکَاثً» نہ ہو جمع «نَکْثٍ» کی «نَاکِثٍ» سے ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ قسموں کو مکر و فریب کا ذریعہ نہ بناؤ کہ اپنے سے بڑوں کو اپنی قسموں سے اطمینان دلاؤ اور اپنی ایمانداری اور نیک نیتی کا سکہ بٹھا کر پھر غداری اور بےایمانی کر جاؤ ان کی کثرت دیکھ کر جھوٹے وعدے کر کے صلح کر لو اور پھر موقع پا کر لڑائی شروع کر دو ایسا نہ کرو ‘ ۔ پس جب کہ اس حالت میں بھی عہد شکنی حرام کر دی تو اپنے جمعیت اور کثرت کے وقت تو بطور اولیٰ حرام ہوئی ۔ بحمد اللہ ہم سورۃ الانفال میں معاویہ رضی اللہ عنہا کا قصہ لکھ آئے ہیں کہ ان میں اور شاہ روم میں ایک مدت تک کے لیے صلح نامہ ہو گیا تھا اس مدت کے خاتمے کے قریب آپ رضی اللہ عنہ نے مجاہدین کو سرحد روم کی طرف روانہ کیا کہ وہ سرحد پر پڑاؤ ڈالیں اور مدت کے ختم ہوتے ہی دھاوا بول دیں تاکہ رومیوں کو تیاری کا موقعہ نہ ملے ۔ جب عمرو بن عتبہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ہوئی تو آپ امیر المؤمنین معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے اللہ اکبر ! اے معاویہ عہد پورا کر غدر اور بدعہدی سے بچ ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ { جس قوم سے عہد معاہدہ ہو جائے تو جب تک کہ مدت صلح ختم نہ ہو جائے کوئی گرہ کھولنے کی بھی اجازت نہیں } ۔ یہ سنتے ہی معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے لشکروں کو واپس بلوا لیا ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:1850،قال الشیخ الألبانی:صحیح) «أَرْبَی» سے مراد اکثر ہے ۔ اس جملے کا یہ بھی مطلب ہے کہ دیکھا کہ دشمن قوی اور زیادہ ہے صلح کر لی اور اس صلح کو ذریعہ فریب بنا کر انہیں غافل کر کے چڑھ دوڑے اور یہ بھی مطلب ہے کہ ایک قوم سے معاہدہ کر لیا پھر دیکھا کہ دوسری قوم ان سے زیادہ قوی ہے ، اس سے معاملہ کرلیا اور اگلے معاہدے کو توڑ دیا یہ سب منع ہے ۔ اس کثرت سے اللہ تمہیں آزماتا ہے ، یا یہ کہ اپنے حکم سے یعنی پابندی وعدہ کے حکم سے اللہ تمہاری آزمائش کرتا ہے اور تم میں صحیح فیصلے قیامت کے دن وہ خود کر دے گا ۔ ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ دے گا نیکوں کو نیک ، بدوں کو بد ۔