فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِينُ
پس اگر وہ منہ موڑ لیں تو آپ کی ذمہ داری صرف کھلم کھلا (پیغام) پہنچا دینا ہے۔
. اسی لیے ان نعمتوں اور رحمتوں کے اظہار کے بعد ہی فرماتا ہے کہ ’ اگر اب بھی یہ لوگ میری عبادت اور توحید کے اور میرے بے پایاں احسانوں کے قائل نہ ہوں تو تجھے ان کی ایسی پڑی ہے ؟ چھوڑ دے اپنے کام میں لگ جا تجھ پر تو صرف تبلیغ ہی ہے وہ کئے جا ۔ یہ خود جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی نعمتوں کا دینے والا ہے اور اس کی بے شمار نعمتیں ان کے ہاتھوں میں ہیں لیکن باوجود علم کے منکر ہو رہے ہیں اور اس کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرتے ہیں بلکہ اس کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ مددگار فلاں ہے رزق دینے والا فلاں ہے ، یہ اکثر لوگ کافر ہیں ، اللہ کے ناشکرے ہیں ‘ ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ { ایک اعرابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت ’ اس نے تمہیں چوپایوں کی کھالوں کے خیمے دئیے ‘ ، اس نے کہا یہ بھی سچ ہے ، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان آیتوں کو پڑھتے گئے اور وہ ہر ایک نعمت کا اقرار کرتا رہا آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا ’ اس لیے کہ تم مسلمان اور مطیع ہو جاؤ ‘ اس وقت وہ پیٹھ پھیر کر چل دیا } ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آخری آیت اتاری کہ اقرار کے بعد انکار کر کے کافر ہو جاتے ہیں ۔