وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ ۚ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں (٢٦) کو ہی پیغامبر بنا کر بھیجا تھا جن پر اپنی وحی نازل کرتے تھے، پس اگر تم لوگ نہیں جانتے ہو تو (تورات و انجیل کا) علم رکھنے والوں سے پوچھ لو۔
انسان اور منصب رسالت پر اختلاف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنا کر بھیجا تو عرب نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اللہ کی شان اس سے بہت اعلیٰ اور بالا ہے کہ وہ کسی انسان کو اپنا رسول بنائے جس کا ذکر قرآن میں بھی ہے “ ۔ فرماتا ہے آیت «أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَیْنَا إِلَیٰ رَجُلٍ مِّنْہُمْ» ۱؎ (10-یونس:2) الخ ، ’ کیا لوگوں کو اس بات پر تعجب معلوم ہوا کہ ہم نے کسی انسان کی طرف اپنی وحی نازل فرمائی کہ وہ لوگوں کو آ گاہ کر دے ‘ ۔ اور فرمایا ’ ہم نے تجھ سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے سبھی انسان تھے جن پر ہماری وحی آتی تھی ۔ تم پہلی آسمانی کتاب والوں سے پوچھ لو کہ وہ انسان تھے یا فرشتے ؟ اگر وہ بھی انسان ہوں تو پھر اپنے اس قول سے باز آؤ ہاں اگر ثابت ہو کہ سلسلہ نبوت فرشتوں میں ہی رہا تو بیشک اس نبی کا انکار کرتے ہوئے تم اچھے لگو گے ‘ ۔ اور آیت میں «مِنْ أَہْلِ الْقُرَیٰ» ۱؎ (12-یوسف:109) کا لفظ بھی فرمایا یعنی ’ وہ رسول بھی زمین کے باشندے تھے ، آ سمان کی مخلوق نہ تھے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” مراد اہل ذکر سے اہل کتاب ہیں “ ۔ مجاہد رحمتہ اللہ علیہ اور اعمش رحمتہ اللہ علیہ کا قول بھی یہی ہے ۔ عبدالرحمٰن رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ” ذکر سے مراد قرآن ہے “ ۔ جیسے آیت «اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ» ۱؎ (15-الحجر:9) میں ہے یہ قول بجائے خود ٹھیک ہے لیکن اس آیت میں ذکر سے مراد قرآن لینا درست نہیں کیونکہ قرآن کے تو وہ لوگ منکر تھے ۔ پھر قرآن والوں سے پوچھ کر ان کی تشفی کیسے ہو سکتی تھی ؟ اسی طرح ابو جعفر باقر رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ” ہم اہل ذکر ہیں “ یعنی یہ امت یہ قول بھی اپنی جگہ ہے ۔ درست ہے فی الواقع یہ امت تمام اگلی امتوں سے زیادہ علم والی ہے اور اہل بیت کے علماء اور علماء سے بدر جہا بڑھ کر ہیں ۔ جب کہ وہ سنت مستقیمہ پر ثابت قدم ہوں ۔ جیسے علی ، ابن عباس ، حسن ، حسین ، رضی اللہ عنہم محمد بن حنفیہ ، علی بن حسین ، زین العابدین ، علی بن عبداللہ بن عباس ، ابو جعفر باقر ، محمد بن علی بن حسین اور ان کے صاحبزادے جعفر رحمہ اللہ اور ان جیسے اور بزرگ حضرات رحمہ اللہ علیہم ۔ اللہ کی رحمت و رضا انہیں حاصل ہو ۔ جو کہ اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے اور صراط مستقیم پر قدم جمائے ہوئے اور ہر حقدار کے حق بجا لانے والے اور ہر ایک کو اس کی سچی جگہ اتارنے والے ، ہر ایک کی قدر و عزت کرنے والے تھے اور خود وہ اللہ کے تمام نیک بندوں کے دلوں میں اپنی مقبولیت رکھتے ہیں ۔ یہ بیشک صحیح تو ہے لیکن اس آیت میں یہ مراد نہیں ۔ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ ’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی انبیاء بنی آدم میں سے ہوتے رہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِّن زُخْرُفٍ أَوْ تَرْقَیٰ فِی السَّمَاءِ وَلَن نٰؤْمِنَ لِرُقِیِّکَ حَتَّیٰ تُنَزِّلَ عَلَیْنَا کِتَابًا نَّقْرَؤُہُ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّی ہَلْ کُنتُ إِلَّا بَشَرًا رَّسُولًا وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَن یُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَہُمُ الْہُدَیٰ إِلَّا أَن قَالُوا أَبَعَثَ اللہُ بَشَرًا رَّسُولًا» (17-الإسراء:94-93) الخ ’ کہہ دے کہ میرا رب پاک ہے میں صرف ایک انسان ہوں جو اللہ کا رسول ہوں ۔ لوگ محض یہ بہانہ کر کے رسولوں کا انکار کر بیٹھے کہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اپنی رسالت دے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِینَ إِلَّا إِنَّہُمْ لَیَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْأَسْوَاقِ» ۱؎ (25-الفرقان:20) ’ تجھ سے پہلے جتنے رسول ہم نے بھیجے سبھی کھانے پینے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے تھے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَمَا جَعَلْنَاہُمْ جَسَدًا لَّا یَأْکُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا کَانُوا خَالِدِینَ» ۱؎ (21-الأنبیاء:8) ’ ہم نے ان کے جسم ایسے نہیں بنائے تھے کہ وہ کھانے پینے سے بے نیاز ہوں یا یہ کہ مرنے والے ہی نہ ہوں ‘ ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «قُلْ مَا کُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرٰسُلِ وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَلَا بِکُمْ» ۱؎ (46-الأحقاف:9) ’ میں کوئی شروع کا اور پہلا اور نیا رسول تو نہیں ؟ ‘ ایک اور آیت میں ہے «قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰ إِلَیَّ أَنَّمَا إِلٰہُکُمْ إِلٰہٌ وَاحِدٌ» ۱؎ (18-الکھف:110) ’ میں تم جیسا انسان ہوں میری جانب وحی اتاری جاتی ہے ‘ الخ ۔ پس یہاں بھی ارشاد ہوا کہ ’ پہلی کتابوں والوں سے پوچھ لو کہ نبی انسان ہوتے تھے یا غیر انسان ؟ ‘ پھر یہاں فرماتا ہے کہ ’ رسول کو وہ دلیلیں دے کر حجتیں عطا فرما کر بھیجتا ہے کتابیں ان پر نازل فرماتا ہے صحیفے انہیں عطا فرماتا ہے ‘ ۔ «زٰبُرِ» سے مراد کتابیں ہیں ۔ جیسے قرآن میں اور جگہ ہے «وَکُلٰ شَیْءٍ فَعَلُوہُ فِی الزٰبُرِ» ۱؎ (54-القمر:52) ’ جو کچھ انہوں نے کیا کتابوں میں ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ» ۱؎ (21-الأنبیاء:105) ’ ہم نے زبور میں لکھ دیا ‘ الخ ۔ پھر فرماتا ہے ’ ہم نے تیری طرف ذکر نازل فرمایا ‘ یعنی قرآن اس لیے کہ چونکہ تو اس کے معنی مطلب سے اچھی طرح واقف ہے اسے لوگوں کو سمجھا بجھا دے ۔ حقیقتاً اے نبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس پر سب سے زیادہ حریص ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے سب سے بڑے عالم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے سب سے زیادہ عامل ہیں ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افضل الخلائق ہیں ، اولاد آدم کے سردار ہیں ۔ جو اجمال اس کتاب میں ہے اس کی تفصیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ہے ، لوگوں پر جو مشکل ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سمجھا دیں تاکہ وہ سوچیں سمجھیں راہ پائیں اور پھر نجات اور دونوں جہاں کی بھلائی حاصل کریں ۔