وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
اور (اے نبی) اگر آپ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں، تو آپ کہہ دیجئے کہ میں قریب (266) ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے، پس انہیں چاہئے کہ میرے حکم کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ راہ راست پر آجائیں
دعا اور اللہ مجیب الدعوات ایک اعرابی نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمارا رب قریب ہے ؟ اگر قریب ہو تو ہم اس سے سرگوشیاں کر لیں یا دور ہے ؟ اگر دور ہو تو ہم اونچی اونچی آوازوں سے اسے پکاریں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اس پر یہ آیت اتری. (تفسیر ابن جریر الطبری:480/3) ایک اور روایت میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس سوال پر کہ ہمارا رب کہاں ہے ؟ یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:481/3) عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب آیت «وَقَالَ رَبٰکُمُ ادْعُونِی أَسْتَجِبْ لَکُمْ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) نازل ہوئی یعنی مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کرتا رہوں گا تو لوگوں نے پوچھا کہ دعا کس وقت کرنی چاہیئے ؟ اس پر یہ آیت اتری (تفسیر ابن جریر الطبری:2915) ۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر وادی میں اترتے وقت بلند آوازوں سے تکبیر کہتے جا رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آ کر فرمانے لگے لوگو ! اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی کم سننے والے یا دور والے کو نہیں پکار رہے بلکہ جسے تم پکارتے ہو وہ تم سے تمہاری سواریوں کی گردن سے بھی زیادہ قریب ہے ، اے عبداللہ بن قیس رضی اللہ عنہ ! سن لو ! جنت کا خزانہ «لاحول ولاقوۃ الا باللہ» ہے (صحیح بخاری:6384) سیدنا انس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ میرے ساتھ جیسا عقیدہ رکھتا ہے میں بھی اس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتا ہوں جب بھی وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے میں اس کے قریب ہی ہوتا ہوں (صحیح مسلم:2686) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ:379 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس مضمون کی آیت کلام پاک میں بھی ہے فرمان ہے آیت «اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مٰحْسِنُوْنَ» ( 16 ۔ النحل : 128 ) جو تقویٰ و احسان و خلوص والے لوگ ہوں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہوتا ہے ، موسیٰ اور ہارون علیہما السلام سے فرمایا جاتا ہے آیت «اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰی» ( 20 ۔ طہٰ : 46 ) میں تم دونوں کے ساتھ ہوں اور دیکھ رہا ہوں ، مقصود یہ ہے کہ باری تعالیٰ دعا کرنے والوں کی دعا کو ضائع نہیں کرتا نہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ اس دعا سے غافل رہے یا نہ سنے اس نے دعا کرنے کی دعوت دی ہے اور اس کے ضائع نہ ہونے کا وعدہ کیا ہے ۔ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتا ہے تو وہ «ارحم الراحمین» اس کے ہاتھوں کو خالی پھیرتے ہوئے شرماتا ہے ۔ (سنن ابوداود:1488 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ سے کوئی ایسی دعا کرتا ہے جس میں نہ گناہ ہو نہ رشتے ناتے ٹوٹتے ہوں تو اسے اللہ تین باتوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے یا تو اس کی دعا اسی وقت قبول فرما کر اس کی منہ مانگی مراد پوری کرتا یا اسے ذخیرہ کر کے رکھ چھوڑتا ہے اور آخرت میں عطا فرماتا ہے یا اس کی وجہ سے کوئی آنے والی بلا اور مصیبت کو ٹال دیتا ہے ، لوگوں نے یہ سن کر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر تو ہم بکثرت دعا مانگا کریں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ کے ہاں کیا کمی ہے ؟ (مسند احمد:18/3:حسن) سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روئے زمین کا جو مسلمان اللہ عزوجل سے دعا مانگے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے یا تو اسے اس کی منہ مانگی مراد ملتی ہے یا ویسی ہی برائی ٹلتی ہے جب تک کہ گناہ کی اور رشتہ داری کے کٹنے کی دعا نہ ہو (سنن ترمذی:3573 ، قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک کوئی شخص دعا میں جلدی نہ کرے اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے جلدی کرنا یہ کہ کہنے لگے میں تو ہر چند دعا مانگی لیکن اللہ قبول نہیں کرتا (صحیح بخاری:6340) بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اسے ثواب میں جنت عطا فرماتا ہے ، صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ نامقبولیت کا خیال کر کے وہ نا امیدی کے ساتھ دعا مانگنا ترک کر دے یہ جلدی کرنا ہے ۔ (صحیح مسلم:2735) ابو جعفر طبری کی تفسیر میں یہ قول سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان کیا گیا ہے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ دل مثل برتنوں کے ہیں بعض بعض سے زیادہ نگرانی کرنے والے ہوتے ہیں ، اے لوگوں تم جب اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرو تو قبولیت کا یقین رکھا کرو ، سنو غفلت والے دل کی دعا اللہ تعالیٰ ایک مرتبہ بھی قبول نہیں فرماتا ۔ (مسند احمد:177/2:ضعیف) سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ الہٰ العالمین ! عائشہ کے اس سوال کا کیا جواب ہے ؟ جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے مراد اس سے وہ شخص ہے جو نیک اعمال کرنے والا ہو اور سچی نیت اور نیک دلی کے ساتھ مجھے پکارے تو میں لبیک کہہ کر اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہوں (المیزان180/1:باطل و ضعیف جداً ) یہ حدیث اسناد کی رو سے غریب ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا اے اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں اے لاشریک اللہ میں حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لیے ہے تیرا کوئی شریک نہیں میری گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بیمثل اور ایک ہی ہے تو پاک ہے ، بیوی بچوں سے دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا تیری ملاقات حق جنت و دوزخ قیامت اور دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں ۔ ( الدیلمی فی مسند الفردوس:1798:ضعیف جداً) سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے اے ابن آدم ! ایک چیز تو تیری ہے ایک میری ہے اور ایک مجھ اور تجھ میں مشترک ہے خالص میرا حق تو یہ ہے کہ ایک میری ہی عبادت کرے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ۔ گویا میرے لیے مخصوص یہ ہے کہ تیرے ہر ہر عمل کا پورا پورا بدلہ میں تجھے ضرور دوں گا کسی نیکی کو ضائع نہ کروں گا مشترک چیز یہ ہے کہ تو دعا کر اور میں قبول کروں تیرا کام دعا کرنا اور میرا کام قبول کرنا (بزار فی کشف الاستار:؛18/1:ضعیف) دعا کی اس آیت کو روزوں کے احکام کی آیتوں کے درمیان وارد کرنے کی حکمت یہ ہے کہ روزے ختم ہونے کے بعد لوگوں کو دعا کی ترغیب ہو بلکہ روزہ افطار کے وقت وہ بکثرت دعائیں کیا کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما افطار کے وقت اپنے گھر والوں کو اور بچوں کو سب کو بلا لیتے اور دعائیں کیا کرتے تھے ۔ (طیالسی:2262:ضعیف) ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے اور اس میں صحابی کی یہ دعا منقول ہے دعا « اللہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِرَحْمَتِکَ الَّتِی وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ ان تغفرلی» یعنی اے اللہ میں تیری اس رحمت کو تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو میرے گناہ معاف فرما دے ۔ (سنن ابن ماجہ:1753 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور حدیث میں تین شخصوں کی دعا رد نہیں ہوتی عادل بادشاہ ، روازے دار اور مظلوم اسے قیامت والے دن اللہ تعالیٰ بلند کرے گا مظلوم کی بد دعا کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے میری عزت کی قسم میں تیری مدد ضرور کروں گا گو دیر سے کروں ۔ (سنن ترمذی:3598 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف)