وَهُوَ الَّذِي سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَأْكُلُوا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَتَسْتَخْرِجُوا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيهِ وَلِتَبْتَغُوا مِن فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اور اسی نے سمندر (٨) کو تابع کردیا ہے تاکہ تم اس میں سے تازہ گوشت کھاؤ، اور اس سے وہ زیور نکالو جسے تم پہنتے ہو اور تم کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ وہ سمندر کا پانی چیرتی ہوئی آگے بڑھتی رہتی ہیں اور تاکہ تم اس کی پیدا کی ہوئی روزی تلاش کرو، اور تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔
اللہ کے انعامات اللہ تعالیٰ اپنی اور مہربانی جتاتا ہے کہ ’ سمندر پر دریا پر بھی اس نے تمہیں قابض کردیا باوجود اپنی گہرائی کے اور اپنی موجوں کے وہ تمہارا تابع ہے ، تمہاری کشتیاں اس میں چلتی ہیں ۔ اسی طرح اس میں سے مچھلیاں نکال کر ان کے تر و تازہ گوشت تم کھاتے ہو ۔ مچھلی حلت کی حالت میں ، احرام کی حالت میں ، زندہ ہو یا مردہ اللہ کی طرف سے حلال ہے ۔ لولو اور جواہر اس نے تمہارے لیے اس میں پیدا کئے ہیں جنہیں تم سہولت سے نکال لیتے ہو اور بطور زیور کے اپنے کام میں لیتے ہو پھر اس کشتیاں ہواؤں کو ہٹاتی پانی کو چیرتی اپنے سینوں کے بل تیرتی چلی جاتی ہیں ‘ ۔ سب سے پہلے نوح علیہ السلام کشی میں سوار ہوئے انہیں کو کشتی بنانا اللہ عالم نے سکھایا پھر لوگ برابر بناتے چلے آئے اور ان پر دریا کے لمبے لمبے سفر طے ہونے لگے اس پار کی چیزیں اس پار اور اس پار کی اس پار آنے جانے لگیں ۔ اسی کا بیان اس میں ہے کہ تم اللہ کا فضل یعنی اپنی روزی تجارت کے ذریعہ ڈھونڈو اور اس کی نعمت و احسان کا شکر مانو اور قدر دانی کرو ۔ مسند بزار میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے مغربی دریا سے کہا کہ ’ میں اپنے بندوں کو تجھ میں سوار کرنے والا ہوں تو ان کے ساتھ کیا کرے گا ؟ ‘ اس نے کہا ڈبو دونگا فرمایا ’ تیری تیزی تیرے کناروں پر ہے اور انہیں میں اپنے ہاتھ پر انہیں اٹھاؤں گا اور جس طرح ماں اپنے بچے کی خبرگیری کرتی ہے میں ان کی کرتا رہوں گا ‘ پس اسے اللہ تعالیٰ نے زیور بھی دئیے اور شکار بھی } ۔ ۱؎ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:9451:ضعیف) اس حدیث کا راوی صرف عبدالرحمٰن بن عبداللہ ہے اور وہ منکر الحدیث ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن ابی عمرو رضی اللہ عنہ سے بھی یہ روایت موقوف مروی ہے ۔ اس کے بعد زمین کا ذکر ہو رہا ہے کہ ’ اس کے ٹھہرانے اور ہلنے جلنے سے بچانے کے لیے اس پر مضبوط اور وزنی پہاڑ جما دیئے کہ اس کے ہلنے کی وجہ سے اس پر رہنے والوں کی زندگی دشوار نہ ہو جائے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالْجِبَالَ اَرْسٰیہَا» ۱؎ (79-النازعات:32) ۔ حسن رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ” جب اللہ تعالیٰ نے زمین بنائی تو وہ ہل رہی تھی یہاں تک کہ فرشتوں نے کہا اس پر تو کوئی ٹھہر ہی نہیں سکتا ۔ صبح دیکھتے ہیں کہ پہاڑ اس پر گاڑ دئیے گئے ہیں اور اس کا ہلنا موقوف ہوگیا پس فرشتوں کو یہ بھی نہ معلوم ہوسکا کہ پہاڑ کس چیز سے پیدا کئے گئے “ ۔ قیس بن عبادہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ” زمین نے کہا تو مجھ پر بنی آدم کو بساتا ہے جو میری پیٹھ پر گناہ کریں گے اور خباثت پھیلائیں گے وہ کانپنے لگی پس اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو اس پر جما دیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور بعض کو دیکھتے ہی نہیں ہو “ ۔ یہ بھی اس کا کرم ہے کہ اس نے نہریں چشمے اور دریا چاروں طرف بہا دئیے -کوئی تیز ہے کوئی سست ، کوئی لمبا ہے کوئی مختصر ، کبھی کم پانی ہے کبھی زیادہ ، کبھی بالکل سوکھا پڑا ہے ۔ پہاڑوں پر ، جنگلوں میں ، ریت میں ، پتھروں میں برابر یہ چشمے بہتے رہتے ہیں اور ریل پیل کر دیتے ہیں یہ سب اس کا فضل و کرم ، لطف و رحم ہے ۔ نہ اس کے سوا کوئی پروردگار نہ اس کے سوا کوئی لائق عبادت ، وہی رب ہے ، وہی معبود ہے ۔ «وَجَعَلْنَا فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیہَا فِجَاجًا سُبُلًا» ۱؎ (21-الانبیأ:31) ’ اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں ‘ ۔ اسی نے راستے بنا دیئے ہیں خشکی میں ، تری میں ، پہاڑ میں ، بستی میں ، اجاڑ میں ہر جگہ اس کے فضل و کرم سے راستے موجود ہیں کہ ادھر سے ادھر لوگ جا آسکیں کوئی تنگ راستہ ہے کوئی وسیع کوئی آسان کوئی سخت ۔ اور بھی علامتیں اس نے مقرر کر دیں جیسے پہاڑ ہیں ٹیلے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ جن سے تری خشکی کے رہرو و مسافر راہ معلوم کر لیتے ہیں ۔ اور بھٹکے ہوئے سیدھے رستے لگ جاتے ہیں ۔ ستارے بھی رہنمائی کے لیے ہیں رات کے اندھیرے میں انہی سے راستہ اور سمت معلوم ہوتی ہے ۔ مالک سے مروی ہے کہ نجوم سے مراد پہاڑ ہیں ۔ پھر اپنی عظمت و کبریائی کا بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ لائق عبادت اس کے سوا اور کوئی نہیں ۔ اللہ کے سوا جن جن کی لوگ عبادت کرتے ہیں وہ محض بے بس ہیں ، کسی چیز کے پیدا کرنے کی انہیں طاقت نہیں اور اللہ تعالیٰ سب کا خالق ہے ، ظاہر ہے کہ خالق اور غیر خالق یکساں نہیں ، پھر دونوں کی عبادت کرنا کس قدر ستم ہے ؟ اتنا بھی بے ہوش ہو جانا شایان انسانیت نہیں ۔ پھر اپنی نعمتوں کی فراوانی اور کثرت بیان فرماتا ہے کہ ’ تمہاری گنتی میں بھی نہیں آسکتیں ، اتنی نعمتیں میں نے تمہیں دے رکھی ہیں یہ بھی تمہاری طاقت سے باہر ہے کہ میری نعمتوں کی گنتی کر سکو ، اللہ تعالیٰ تمہاری خطاؤں سے درگزر فرماتا رہتا ہے اگر اپنی تمام تر نعمتوں کا شکر بھی تم سب طلب کرے تو تمہارے بس کا نہیں ۔ اگر ان نعمتوں کے بدلے تم سے چاہے تو تمہاری طاقت سے خارج ہے سنو اگر وہ تم سب کو عذاب کرے تو بھی وہ ظالم نہیں لیکن وہ غفور و رحیم اللہ تمہاری برائیوں کو معاف فرما دیتا ہے ، تمہاری تقصیروں سے تجاوز کر لیتا ہے ۔ توبہ ، رجوع ، اطاعت اور طلب رضا مندی کے ساتھ جو گناہ ہو جائیں ان سے چشم پوشی کر لیتا ہے ۔ بڑا ہی رحیم ہے ، توبہ کے بعد عذاب نہیں کرتا ‘ ۔