وَالْأَنْعَامَ خَلَقَهَا ۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور اس نے چوپایوں کو پیدا کیا ہے جن میں تمہارے لیے گرمی حاصل کرنے کا سامان اور دیگر منافع ہیں، اور ان میں سے بعض جانوروں کا تم گوشت کھاتے ہو۔
چوپائے اور انسان جو چوپائے اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان ان سے مختلف فائدے اٹھا رہا ہے اس نعمت کو رب العالمین فرما رہا ہے جیسے اونٹ گائے بکری ، جس کا مفصل بیان سورۃ الأنعام کی آیت میں آٹھ قسموں سے کیا ہے ۔ ان کے بال اون صوف وغیرہ کا گرم لباس اور جڑاول بنتی ہے دودھ پیتے ہیں گوشت کھاتے ہیں ۔ شام کو جب وہ چر چگ کر واپس آتے ہیں ، بھری ہوئی کوکھوں والے ، بھرے ہوئے تھنوں والے ، اونچی کوہانوں والے ، کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں اور جب چراگاہ کی طرف جاتے ہیں کیسے پیارے معلوم ہوتے ہیں پھر تمہارے بھاری بھاری بوجھ ایک شہر سے دوسرے شہر تک اپنی کمر پر لاد کر لے جاتے ہیں کہ تمہارا وہاں پہنچنا بغیر آدھی جان کئے مشکل تھا ۔ حج و عمرہ کے ، جہاد کے ، تجارت کے اور ایسے ہی اور سفر انہیں پر ہوتے ہیں تمہیں لے جاتے ہیں تمہارے بوجھ ڈھوتے ہیں ۔ جیسے آیت «وَإِنَّ لَکُمْ فِی الْأَنْعَامِ لَعِبْرَۃً نٰسْقِیکُم مِّمَّا فِی بُطُونِہَا وَلَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ کَثِیرَۃٌ وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:21-22) میں ہے کہ ’ یہ چوپائے جانور بھی تمہاری عبرت کا باعث ہیں ان کے پیٹ ہم تمہیں دودھ پلاتے ہیں اور ان سے بہت سے فائدے پہنچاتے ہیں ان کا گوشت بھی تم کھاتے ہو ان پر سواریاں بھی کرتے ہو ‘ ۔ سمندر کی سواری کے لیے کشتیاں ہم نے بنا دی ہیں ۔ اور آیت میں ہے « اللہُ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الْأَنْعَامَ لِتَرْکَبُوا مِنْہَا وَمِنْہَا تَأْکُلُونَ وَلَکُمْ فِیہَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَیْہَا حَاجَۃً فِی صُدُورِکُمْ وَعَلَیْہَا وَعَلَی الْفُلْکِ تُحْمَلُونَ وَیُرِیکُمْ آیَاتِہِ فَأَیَّ آیَاتِ اللہِ تُنکِرُونَ» ۱؎ (40-غافر:79-81) ’ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے چوپائے پیدا کئے ہیں کہ تم ان پر سواری کرو انہیں کھاؤ نفع اٹھاؤ دلی حاجتیں پوری کرو اور تمہیں کشتیوں پر بھی سوار کرایا اور بہت سی نشانیاں دکھائیں پس تم ہمارے کس کس نشان کا انکار کرو گے ؟ ‘ یہاں بھی اپنی یہ نعمتیں جتا کر فرمایا کہ ’ تمہارا وہ رب جس کا مطیع بنا دیا ہے وہ تم پر بہت ہی شفقت و رحمت والا ہے ‘ ۔ جیسے سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ یَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَہُمْ مِمَّا عَمِلَتْ أَیْدِینَا أَنْعَامًا فَہُمْ لَہَا مَالِکُونَ وَذَلَّلْنَاہَا لَہُمْ فَمِنْہَا رَکُوبُہُمْ وَمِنْہَا یَأْکُلُونَ» ۱؎ (36-یس:71-72) ’ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ان کیلئے اپنے ہاتھوں چوپائے بنائے اور انہیں انکا مالک بنا دیا اور انیں انکا مطیع بنا دیا کہ بعض کو کھائیں بعض پر سوار ہوں ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «وَالَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا وَجَعَلَ لَکُم مِّنَ الْفُلْکِ وَالْأَنْعَامِ مَا تَرْکَبُونَ لِتَسْتَوُوا عَلَیٰ ظُہُورِہِ ثُمَّ تَذْکُرُوا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ إِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُولُوا سُبْحَانَ الَّذِی سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہُ مُقْرِنِینَ وَإِنَّا إِلَیٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ» ۱؎ (43-الزخرف:12-14) ، ’ اس اللہ نے تمہارے لیے کشتیاں بنا دیں اور چوپائے پیدا کر دیئے کہ تم ان پر سوار ہو کر اپنے رب کا فضل و شکر کرو اور کہو وہ پاک ہے جس نے انہیں ہمارا ماتحت کر دیا حلانکہ ہم میں یہ طاقت نہ تھی ہم مانتے ہیں کہ ہم اسی کی جانب لوٹیں گے ‘ ۔ «دِفْءٌ» کے معنی کپڑا اور «مَنَافِعُ» سے مراد کھانا پینا ، نسل حاصل کرنا ، سواری کرنا ، گوشت کھانا ، دودھ پینا ہے ۔