سورة النحل - آیت 3

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ۚ تَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اس نے آسمانوں اور زمین کو مقصد سے پیدا کیا ہے (٣) وہ مشرکوں کے شرک سے برتر و بالا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

. عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے -بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث ۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہو گی ۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے ۔ واحد ہے ، لا شریک ہے ، اکیلا ہی خالق کل ہے ۔ اسی لیے اکیلا ہی سزاوار عبادت ہے ۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے ۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے ۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنا دیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے ۔ بندہ تھا چاہیئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا ۔ اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَہُ نَسَبًا وَصِہْرًا وَکَانَ رَبٰکَ قَدِیرًا وَیَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللہِ مَا لَا یَنْفَعُہُمْ وَلَا یَضُرٰہُمْ وَکَانَ الْکَافِرُ عَلَی رَبِّہِ ظَہِیرًا» (25-الفرقان:54-55) ’ اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا ۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بے نفع اور بے ضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں ‘ ۔ سورۃ یاسین میں فرمایا «أَوَلَمْ یَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاہُ مِن نٰطْفَۃٍ فَإِذَا ہُوَ خَصِیمٌ مٰبِینٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَن یُحْیِی الْعِظَامَ وَہِیَ رَمِیمٌ قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی أَنشَأَہَا أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیمٌ» ۱؎ (36-یس:77-79) ’ کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا ۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے ‘ ۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ ’ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کر سکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہو گیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو ، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں ۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا ‘ } ۔ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:2707،قال الشیخ الألبانی:حسن)