وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ
اور ہم نے انسان کو کھنکھناتے غھیکرے سے پیدا (١٦) کیا ہے، جو سڑی ہوئی مٹی کا بنا تھا۔
خشک مٹی «صَلْصَالٍ» سے مراد خشک مٹی ہے ۔ اسی جیسی آیت «خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِن مَّارِجٍ مِّن نَّارٍ» ۱؎ (55-الرحمن:14-15) ہے ۔ یہ بھی مروی ہے کہ بو دار مٹی کو «حَمَا» کہتے ہیں ۔ چکنی مٹی کو «مَسْنُوْن» کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں تر مٹی ۔ اوروں سے مروی ہے بو دار مٹی اور گندھی ہوئی مٹی ۔ انسان سے پہلے ہم نے جنات کو جلا دینے والی آگ سے بنایا ہے ۔ «سَّمُوْم» کہتے ہیں آگ کی گرمی کو اور «حُرُور» کہتے ہیں دن کی گرمی کو ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس گرمی کی لوئیں اس گرمی کا سترہواں حصہ ہیں ۔ جس سے جن پیدا کئے گئے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جن آگ کے شعلے سے بنائے گئے ہیں یعنی آگ سے بہت بہتر ۔ عمرو کہتے ہیں سورج کی آگ سے ۔ صحیح میں وارد ہے کہ { فرشتے نور سے پیدا کئے گئے اور جن شعلے والی آگ سے اور آدم علیہ السلام اس سے جو تمہارے سامنے بیان کر دیا گیا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2996) اس آیت سے مراد آدم علیہ السلام کی فضیلت و شرافت اور ان کے عنصر کی پاکیزگی اور طہارت کا بیان ہے ۔