وَقَالُوا يَا أَيُّهَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْهِ الذِّكْرُ إِنَّكَ لَمَجْنُونٌ
اور کفار مکہ نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا (٥) اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے تو یقینا پاگل ہے۔
سرکش و متکبر ہلاک ہوں گے کافروں کا کفر ، ان کی سرکشی تکبر اور ضد کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ بطور مذاق اور ہنسی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ اے وہ شخص جو اس بات کا مدعی ہے کہ تجھ پر قرآن اللہ کا کلام اتر رہا ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ تو سراسر پاگل ہے کہ اپنی تابعداری کی طرف ہمیں بلا رہا ہے اور ہم سے کہہ رہا ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے دین کو چھوڑ دیں ۔ اگر سچا ہے تو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لاتا جو تیری سچائی ہم سے بیان کریں ۔ فرعون نے بھی ہی کہا تھا کہ آیت «فَلَوْلَا أُلْقِیَ عَلَیْہِ أَسْوِرَۃٌ مِّن ذَہَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَہُ الْمَلَائِکَۃُ مُقْتَرِنِینَ» ۱؎ (43-الزخرف:53) ’ اس پر سونے کے کنگن کیوں نہیں ڈالے گئے ؟ اس کے ساتھ مل کر فرشتے کیوں نہیں آئے ؟ ‘ رب کی ملاقات کے منکروں نے آواز اٹھائی کہ «وَقَالَ الَّذِینَ لَا یَرْجُونَ لِقَاءَنَا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَیْنَا الْمَلَائِکَۃُ أَوْ نَرَیٰ رَبَّنَا لَقَدِ اسْتَکْبَرُوا فِی أَنفُسِہِمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا کَبِیرًا یَوْمَ یَرَوْنَ الْمَلَائِکَۃَ لَا بُشْرَیٰ یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِینَ وَیَقُولُونَ حِجْرًا مَّحْجُورًا» ۱؎ (25-الفرقان:21،22) ’ ہم پر فرشتے کیوں نازل نہیں کئے جاتے ؟ یا یہی ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیتے دراصل یہ گھمنڈ میں آ گئے اور بہت ہی سرکش ہو گئے ۔ فرشتوں کو دیکھ لینے کا دن جب آ جائے گا اس دن ان گنہگاروں کو کوئی خوشی نہ ہوگی ‘ ۔ یہاں بھی فرمان ہے کہ ’ ہم فرشتوں کو حق کے ساتھ ہی اتارتے ہیں یعنی رسالت یا عذاب کے ساتھ اس وقت پھر کافروں کو مہلت نہیں ملے گی ‘ ۔ ’ اس ذکر یعنی قرآن کو ہم نے ہی اتارا ہے اور اس کی حفاظت کے ذمے دار بھی ہم ہی ہیں ، ہمیشہ تغیر و تبدل سے بچا رہے گا ‘ ۔ بعض کہتے ہیں کہ «لَہُ» کی ضمیر کا مرجع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یعنی قرآن اللہ ہی کا نازل کیا ہوا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حافظ وہی ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَ اللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ» ۱؎ (5-المائدہ:67) ’ تجھے لوگوں کی ایذاء رسانی سے اللہ محفوظ رکھے گا ‘ ۔ لیکن پہلا معنی اولیٰ ہے اور عبارت کی ظاہر روانی بھی اسی کو ترجیح دیتی ہے ۔