سورة البقرة - آیت 172

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے ایمان والو ! ہماری عطا کردہ پاکیزہ (249) چیزیں کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر تم واقعی صرف اسی کی عبادت کرتے ہو

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

حلال اور حرام کیا ہے؟ اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ تم پاک صاف اور حلال طیب چیزیں کھایا کرو اور میری شکر گزاری کرو ، لقمہ حلال دعا عبادت کی قبولیت کا سبب ہے اور لقمہ حرام عدم قبولیت کا ، مسند احمد میں حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لوگو اللہ تعالیٰ پاک ہے وہ پاک چیز کو قبول فرماتا ہے اس نے رسولوں کو اور ایمان والوں کو حکم دیا کہ وہ پاک چیزیں کھائیں اور نیک اعمال کریں فرمان ہے آیت «یٰٓاَیٰہَا الرٰسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا» ( 23 ۔ المؤمنون : 51 ) اور فرمایا آیت «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَاشْکُرُوْا لِلہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ» ( 2 ۔ البقرہ : 172 ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص لمبا سفر کرتا ہے وہ پراگندہ بالوں والا غبار آلود ہوتا ہے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے اور گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے لیکن اس کا کھانا پینا لباس اور غذا سب حرام کے ہیں اس لیے اس کی اس وقت کی ایسی دعا بھی قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح مسلم:1015) حلال چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد حرام چیزوں کا بیان ہو رہا ہے کہ تم پر مردار جانور جو اپنی موت آپ مر گیا ہو جسے شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو حرام ہے خواہ کسی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ہو یا لکڑی اور لٹھ لگنے سے مر گیا ہو کہیں سے گر پڑا ہو اور مر گیا ہو یا دوسرے جانوروں نے اپنے سینگ سے اسے ہلاک کر دیا ہو یا درندوں نے اسے مار ڈالا ہو یہ سب میتہ میں داخل ہیں اور حرام ہیں لیکن اس میں سے پانی کے جانور مخصوص ہیں وہ اگرچہ خودبخود مر جائیں تو بھی حلال ہیں ۔ آیت «اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِلسَّیَّارَۃِ» ( 5 ۔ المائدہ : 96 ) اس کا پورا بیان اس آیت کی تفسیر میں آئے گا ۔ ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ عنبر نامی جانور کا مرا ہوا ملنا اور صحابہ کا اسے کھانا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہونا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے جائز قرار دینا یہ سب باتیں حدیث میں ہیں ۔ (صحیح بخاری:4360) ایک اور حدیث میں ہے کہ سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ حلال ہے ، (سنن ابوداود:83 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اور حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دو مردے اور دو خون ہم پر حلال ہیں مچھلی اور ٹڈی کلیجی اور تلی ، (سنن ابن ماجہ:3314 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) سورۃ المائدہ میں اس کا بیان تفصیل وار آئے گا ۔ ان شاءاللہ ۔ مسئلہ مردار جانور کا دودھ اور اس کے انڈے جو اس میں ہوں نجس ہیں امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اس لیے کہ وہ بھی میت کا ایک جزو ہے ، امام مالک رحمتہ اللہ سے ایک روایت میں ہے کہ تو وہ پاک لیکن میت میں شامل کی وجہ سے جنس ہو جاتا ہے ، اسی طرح مردار کی کھیس ( کھیری ) بھی مشہور مذہب میں ان بزرگوں کے نزدیک ناپاک ہے گو اس میں اختلاف بھی ہے ، صحابہ رضی اللہ عنہم کا مجوسیوں کا پنیر کھانا گو بطور اعتراض ان پر وارد ہو سکتا ہے مگر اس کا جواب قرطبی رحمہ اللہ نے یہ دیا ہے کہ دودھ بہت ہی کم ہوتا ہے اور کوئی بہنے والی ایسی تھوڑی سی چیز اگر کسی مقدار میں زیادہ بہنے والی میں بڑ جائے تو کوئی حرج نہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گھی اور پنیر اور گورخر کے بارے میں سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال بتایا اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا اور جس کا بیان نہیں وہ سب معاف ہیں ۔ (سنن ترمذی:1726 ، قال الشیخ الألبانی:حسن) پھر فرمایا تم پر سور کا گوشت بھی حرام ہے خواہ اسے ذبح کیا ہو خواہ وہ خود مر گیا ہو ، سور کی چربی کا حکم بھی یہی ہے اس لیے کہ چونکہ اکثر گوشت ہی ہوتا ہے اور چربی گوشت کے ساتھ ہی ہوتی ہے پس جب گوشت حرام ہوا تو چربی بھی حرام ہوئی ، دوسرے اس لیے بھی کہ گوشت میں ہی چربی ہوتی ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ پھر فرمایا کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے نام پر مشہور کی جائے وہ بھی حرام ہے جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ اپنے معبودان باطل کے نام پر جانور ذبح کیا کرتے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری رحمہ اللہ نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہیئے اس لیے کہ وہ ایک تصویر کے لیے ذبح کیا گیا ، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہیئے یا نہیں ؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لیے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ ۔ (تفسیر قرطبی:224/2) پھر اللہ تعالیٰ نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بے بس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے باغ اور عاد کی تفسیر میں حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ڈاکو راہزن مسلمان بادشاہ پر چڑھائی کرنے والا سلطنت اسلام کا مخالف اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں سفر کرنے والا سبھی کے لیے اس اضطرار کے وقت بھی حرام چیزیں حرام ہی رہتی ہیں ، غیر باغ کی تفسیر مقاتل بن حبان یہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسے حلال سمجھنے والا نہ ہو ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:236/1) اور اس میں لذت اور مزہ کا خواہشمند نہ ہو ، اسے بھون بھان کر لذیذ بنا کر اچھا پکا کر نہ کھائے بلکہ جیسا تیسا صرف جان بچانے کے لیے کھا لے اور اگر ساتھ لے تو اتنا کہ زندگی کے ساتھ حلال چیز کے ملنے تک باقی رہ جائے جب حلال چیز مل گئی اسے پھینک دے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اسے خوب پیٹ بھر کر نہ کھائے ، حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص اس کے کھانے کے لیے مجبور کر دیا جائے اور بے اختیار ہو جائے اس کا بھی یہی حکم ہے ۔ مسئلہ ایک شخص بھوک کے مارے بے بس ہو گیا ہے اسے ایک مردار جانور نظر پڑا اور کسی دوسرے کی حلال چیز بھی دکھائی دی جس میں نہ رشتہ کا ٹوٹنا ہے نہ ایذاء دہی ہے تو اسے اس دوسرے کی چیز کو کھا لینا چاہیئے مردار نہ کھائے ، پھر آیا اس چیز کی قیمت یا وہی چیز اس کے ذمہ رہے گی یا نہیں اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ رہے گی دوسرے یہ کہ نہ رہے گی ۔ نہ رہنے والے قول کی تائید میں یہ حدیث ہے جو ابن ماجہ میں ہے ، عباد بن شرحبیل غبری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہمارے ہاں ایک سال قحط سالی پڑی میں مدینہ گیا اور ایک کھیت میں سے کچھ بالیں توڑ کر چھیل کر دانے چبانے لگا اور تھوڑی سی بالیں اپنی چادر میں باندھ کر چلا کھیت والے نے دیکھ لیا اور مجھے پکڑ کر مارا پیٹا اور میری چادر چھین لی ، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا تو آپ نے اس شخص کو کہا اس بھوکے کو نہ تو تو نے کھانا کھلایا نہ اس کے لیے کوئی اور کوشش کی نہ اسے کچھ سمجھایا سکھایا یہ بے چارہ بھوکا تھا نادان تھا جاؤ اس کا کپڑا واپس کرو اور ایک وسق یا آدھا وسق غلہ اسے دے دو ، (سنن ابوداود:2620 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) ( ایک وسق چار من کے قریب ہوتا ہے ) ایک اور حدیث میں ہے کہ درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان میں سے کچھ کھا لے ، لے کر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں ۔(سنن ابوداود:1710،قال الشیخ الألبانی:حسن) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بے بسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بے بسی اور اضطرار ہٹ جائے ، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لیے حلال ہے مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں اضطرار کے وقت بھی جو شخص حرام چیز نہ کھائے اور مر جائے وہ جہنمی ہے ،(بیھقی:357/9:ضعیف) اس سے معلوم ہوا کہ ایسے وقت ایسی چیز کھانی ضروری ہے نہ کہ صرف رخصت ہی ہو ، یہی بات زیادہ صحیح ہے جیسے کہ بیمار کا روزہ چھوڑ دینا وغیرہ ۔