سورة ابراھیم - آیت 32

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ ۖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

وہ اللہ کی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے (٢٣) اور آسمان سے بارش بھیجتا ہے، جس کے ذریعہ انواع و اقسام کے پھل پیدا کیے ہیں جو تمہاری روزی کا سامان مہیا کرتے ہیں اور تمہارے لیے کشتیوں کو مسخر کیا ہے تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلیں اور تمہارے لیے دریاؤں کو مسخر کیا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

سب کچھ تمہارا مطیع ہے اللہ کی طرح طرح کی بےشمار نعمتوں کو دیکھو ، آسمان کو اس نے ایک محفوظ چھت بنا رکھا ہے زمین کو بہترین فرش بنا رکھا ہے آسمان سے بارش برسا کر زمین سے مزے مزے کے پھل کھیتیاں باغات تیار کر دیتا ہے ۔ اسی کے حکم سے کشتیاں پانی کے اوپر تیرتی پھرتی ہیں کہ تمہیں ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور ایک ملک سے دوسرے ملک پہنچائیں تم وہاں کا مال یہاں ، یہاں کا وہاں لے جاؤ ، لے آؤ ، نفع حاصل کرو ، تجربہ بڑھاؤ ۔ نہریں بھی اسی نے تمہارے کام میں لگا رکھی ہیں ، تم ان کا پانی پیو ، پلاؤ ، اس سے کھیتیاں کرو ، نہاؤ دھوؤ اور طرح طرح کے فائدے حاصل کرو ۔ «لَا الشَّمْسُ یَنبَغِی لَہَا أَن تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ» ۱؎ (36-یس:40) ’ ہمیشہ چلتے پھرتے اور کبھی نہ تھکتے سورج چاند بھی تمہارے فائدے کے کاموں میں مشغول ہیں مقرر چال پر مقرر جگہ پر گردش میں لگے ہوئے ہیں ۔ نہ ان میں تکرار ہو نہ آگا پیچھا ‘ ۔ «یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ أَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ تَبَارَکَ اللہُ رَبٰ الْعَالَمِینَ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ دن رات انہی کے آنے جانے سے پے در پے آتے جاتے رہتے ہیں ستارے اسی کے حکم کے ماتحت ہیں اور رب العالمین بابرکت ہے ‘ ۔ «یُولِجُ اللَّیْلَ فِی النَّہَارِ وَیُولِجُ النَّہَارَ فِی اللَّیْلِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ یَجْرِی إِلَیٰ أَجَلٍ مٰسَمًّی وَأَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ» ۱؎ (31-لقمان:29) ’ کبھی دنوں کو بڑے کر دیتا ہے کبھی راتوں کو بڑھا دیتا ہے ، ہر چیز اپنے کام میں سر جھکائے مشغول ہے ، وہ اللہ عزیز و غفار ہے ۔ تمہاری ضرورت کی تمام چیزیں اس نے تمہارے لیے مہیا کر دی ہیں تم اپنے حال و قال سے جن جن چیزوں کے محتاج تھے ، اس نے سب کچھ تمہیں دے دی ہیں ، مانگنے پر بھی وہ دیتا ہے اور بغیر مانگے بھی اس کا ہاتھ نہیں رکھتا ۔ تم بھلا رب کی تمام نعمتوں کا شکریہ تو ادا کرو گے ؟ تم سے تو ان کی پوری گنتی بھی محال ہے ‘ ۔ طلق بن حبیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اللہ کا حق اس سے بہت بھاری ہے کہ بندے اسے ادا کرسکیں اور اللہ کی نعمتیں اس سے بہت زیادہ ہیں کہ بندے ان کی گنتی کرسکیں لوگو صبح شام توبہ استغفار کرتے رہو “ ۔ صحیح بخاری میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ { اے اللہ تیرے ہی لیے سب حمد و ثنا سزاوار ہے ، ہماری ثنائیں ناکافی ہیں ، پوری اور بے پرواہ کرنے والی نہیں اے اللہ تو معاف فرما } } ۔ (صحیح بخاری:5459) بزار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ { قیامت کے دن انسان کے تین دیوان نکلیں گے ایک میں نیکیاں لکھی ہوئی ہوں گی اور دوسرے میں گناہ ہوں گے ، تیسرے میں اللہ کی نعمتیں ہوں گی ۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں میں سے سب سے چھوٹی نعمت سے فرمائے گا کہ ’ اٹھ اور اپنا معاوضہ اس کے نیک اعمال سے لے لے ‘ ، اس سے اس کے سارے ہی عمل ختم ہو جائیں گے پھر بھی وہ یکسو ہو کر کہے گی کہ باری تعالیٰ میری پوری قیمت وصول نہیں ہوئی خیال کیجئے ابھی گناہوں کا دیوان یونہی الگ تھلگ رکھا ہوا ہے ۔ اگر بندے پر اللہ کا ارادہ رحم و کرم کا ہوا تو اب وہ اس کی نیکیاں بڑھا دے گا اور اس کے گناہوں سے تجاوز کر لے گا اور اس سے فرما دے گا کہ میں نے اپنی نعمتیں تجھے بغیر بدلے کے بخش دیں } } ۔ (مسند بزار ، 3444:ضعیف) اس کی سند ضعیف ہے ۔ مروی ہے کہ داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ جل و علا سے دریافت کیا کہ میں تیرا شکر کیسے ادا کروں ؟ شکر کرنا خود بھی تو تیری ایک نعمت ہے ۔ جواب ملا کہ ’ داؤد ! اب تو شکر ادا کر چکا جب کہ تونے یہ جان لیا اور اس کا اقرار کر لیا کہ تو میری نعمتوں کی شکر کی ادائیگی سے قاصر ہے ‘ ۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” اللہ ہی کیلئے تو حمد ہے ، جس کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت کا شکر بھی بغیر ایک نئی نعمت کے ہم ادا نہیں کرسکتے کہ اس نئی نعمت پر پھر ایک شکر واجب ہو جاتا ہے پھر اس نعمت کی شکر گزاری کی ادائیگی کی توفیق پر بھی پھر نعمت ملی ، جس کا شکریہ واجب ہوا “ ۔ ایک شاعر نے یہی مضمون اپنے شعروں میں باندھا ہے «لَوْ کُلٰ جَارِحَۃٍ مِنِّی لَہَا لُغَۃٌ تُثْنِی» «عَلَیکَ بِمَا أَوْلَیتَ مِنْ حَسَنِ» «لَکَانَ مَا زَادَ شُکْرِی إِذْ شَکَرْتُ بِہِ» «إِلَیْکَ أَبْلُغَ فِی الْإِحْسَانِ وَالْمِنَنِ» کہ رونگٹے رونگٹے پر زبان ہو تو بھی تیری ایک نعمت کا شکر بھی پورا ادا نہیں ہو سکتا تیرے احسانات اور انعامات بےشمار ہیں ۔