سورة ابراھیم - آیت 28

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ بَدَّلُوا نِعْمَتَ اللَّهِ كُفْرًا وَأَحَلُّوا قَوْمَهُمْ دَارَ الْبَوَارِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کے بدلے میں ناشکری کی (٢١) اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر تک پہنچا گیا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

منافقین قریش صحیح بخاری میں ہے(صحیح بخاری:کتاب التفسیر:سورۃ ابراھیم باب :3) «أَلَمْ تَرَ» معنی میں «أَلَمْ تَعْلَمْ» کے ہے یعنی کیا تو نہیں جانتا «بَوَارِ» کے معنی ہلاکت کے ہیں «بَارَ یَبُورُ بَوْرًا » سے «بُورًا » کے معنی «ہَالِکِینَ» کے ہیں ۔ مراد ان لوگوں سے بقول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ” کفار اہل مکہ ہیں “ اور قول ہے کہ ” مراد اس سے جبلہ بن ابہم اور اس کی اطاعت کرنے والے وہ عرب ہیں جو رومیوں سے مل گئے تھے “ ۔ (تفسیر قرطبی:451/7) لیکن مشہور اور صحیح قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اول ہی ہے ۔ گو الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار مشتمل ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر اور کل لوگوں کے لیے نعمت بنا کر بھیجا ہے جس نے اس رحمت و نعمت کی قدر دانی کی وہ جنتی ہے اور جس نے ناقدری کی وہ جہنمی ہے ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایک قول سیدنا ابن عباس کے پہلے قول کی موافقت میں مروی ہے ابن کواء کے جواب میں آپ رضی اللہ عنہ نے یہی فرمایا تھا کہ ” یہ بدر کے دن کے کفار قریش ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ ایک شخص کے سوال پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” مراد اس سے منافقین قریش ہیں “ ۔ اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ فرمایا کہ ” کیا مجھ سے قرآن کی بابت کوئی کچھ بات دریافت نہیں کرتا ؟ واللہ ! میرے علم میں اگر آج کوئی مجھ سے زیادہ قرآن کا عالم ہوتا تو چاہے وہ سمندروں پار ہوتا لیکن میں ضرور اس کے پاس پہنچتا ۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء کھڑا ہوگیا اور کہا یہ کون لوگ ہیں جن کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلا اور اپنی قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈال دیا ؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ” یہ مشریکن قریش ہیں ان کے پاس اللہ کی نعمت ایمان پہنچی لیکن اس نعمت کو انہوں نے کفر سے بدل دیا “ ۔ اور روایت میں آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” اس سے مراد قریش کے دو فاجر ہیں بنو امیہ اور بنو مغیرہ “ ۔ بنو مغیرہ نے اپنی قوم کو بدر میں لا کھڑا کیا اور انہیں ہلاکت میں ڈالا اور بنو امیہ نے احد والے دن اپنے والوں کو غارت کیا ۔ بدر میں ابوجہل تھا اور احد میں ابوسفیان اور ہلاکت کے گھر سے مراد جہنم ہے ۔ اور روایت میں ہے کہ بنو مغیرہ تو بدر میں ہلاک ہوئے اور بنو امیہ کو کچھ دنوں کا فائدہ مل گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی مروی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جب آپ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” یہ دونوں قریش کے بدکار ہیں ۔ میرے ماموں اور تیرے چچا ، میری ممیاں والے تو بدر کے دن ناپید ہوگئے اور تیرے چچا والوں کو اللہ نے مہلت دے رکھی ہے ۔ یہ جہنم میں جائیں گے جو بری جگہ ہے ۔ انہوں نے خود شرک کیا دوسروں کو شرک کی طرف بلایا “ ۔ ’ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم ان سے کہہ دو کہ دنیا میں کچھ کھا پی لو پہن اوڑھ لو آخر ٹھکانا تو تمہارا جہنم ہے ‘ ۔ جیسے فرمان ہے «نُمَتِّعُہُمْ قَلِیلًا ثُمَّ نَضْطَرٰہُمْ إِلَیٰ عَذَابٍ غَلِیظٍ» ۱؎ (31-لقمان:24) ’ ہم انہیں یونہی سا آرام دے دیں گے پھر سخت عذابوں کی طرف بے بس کر دیں گے ‘ ۔ «مَتَاعٌ فِی الدٰنْیَا ثُمَّ إِلَیْنَا مَرْجِعُہُمْ ثُمَّ نُذِیقُہُمُ الْعَذَابَ الشَّدِیدَ بِمَا کَانُوا یَکْفُرُونَ» ۱؎ (10-یونس:70) ’ دنیاوی نفع اگرچہ ہو گا لیکن لوٹیں گے تو ہماری ہی طرف اس وقت ہم انہیں ان کے کفر کی وجہ سے سخت عذاب کریں گے ‘ ۔