وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا أَنْ أَخْرِجْ قَوْمَكَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
اور ہم نے موسیٰ کو اپنے معجزات دے کر بھیجا اور کہا کہ آپ اپنی قوم کو ظلمتوں سے نکال کر روشنی (٥) میں پہنچائیے اور قوموں پر اللہ کی جانب سے نازل شدہ عذاب کے واقعات سنا کر انہیں نصیحت کیجیے، بیشک ان واقعات میں صبر و شکر کرنے والے ہر شخص کے لیے نشانیاں ہیں۔
نو نشانیاں ’ جیسے ہم نے تجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے اور تجھ پر اپنی کتاب نازل فرمائی ہے کہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئے ، اسی طرح ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا تھا بہت سی نشانیاں بھی دی تھیں ‘ ، جن کا بیان آیت «وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَیٰ تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَائِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَأَظُنٰکَ یَا مُوسَیٰ مَسْحُورًا» ۱؎ (17-الإسراء:101) میں ہے ۔ انہیں بھی یہی حکم تھا کہ ’ لوگوں کو نیکیوں کی دعوت دے انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی میں اور جہالت و ضلالت سے ہٹا کر علم و ہدایت کی طرف لے آ ۔ انہیں اللہ کے احسانات یاد دلا ، کہ اللہ نے انہیں فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کی غلامی سے آزاد کیا ان کے لیے دریا کو کھڑا کر دیا ان پر ابر کا سایہ کر دیا ان پر من و سلوی اتارا اور بھی بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں ‘ ۔ مسند کی مرفوع حدیث میں «بِأَیَّامِ اللہِ » کی تفسیر اللہ کی نعمتوں سے مروی ہے ۔ (مسند احمد:122/5:حدیث صحیح و اسنادہ ضیعف) لیکن ابن جریر رحمہ اللہ میں یہ روایت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہی سے موقوفاً بھی آئی ہے اور یہی زیادہ ٹھیک ہے ۔ ہم نے اپنے بندوں بنی اسرائیل کے ساتھ جو احسان کئے فرعون سے نجات دلوانا ، اس کے ذلیل عذابوں سے چھڑوانا ، اس میں ہر صابر و شاکر کے لیے عبرت ہے ۔ جو مصیبت میں صبر کرے اور راحت میں شکر کرے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:418/7) صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مومن کا تمام کام عجیب ہے اسے مصیبت پہنچے تو صبر کرتا ہے وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے راحت و آرام ملے شکر کرتا ہے اس کا انجام بھی اس کے لیے بہتر ہوتا ہے } } ۔ (صحیح مسلم:2999)