حَتَّىٰ إِذَا اسْتَيْأَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ قَدْ كُذِبُوا جَاءَهُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّيَ مَن نَّشَاءُ ۖ وَلَا يُرَدُّ بَأْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ
یہاں تک کہ جب انبیاء پر ناامیدی (٩٧) چھانے لگی، اور ان کی قوموں نے سمجھا کہ عذاب کا وعدہ جھوٹا تھا، تو ہماری مدد ان کے پاس آگئی، پھر ہم نے جسے چاہا نجات دی، اور مجرم قوموں سے ہامرا عذاب ٹالا نہیں جاسکتا ہے۔
جب مخالفت عروج پر ہو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اس کی مدد اس کے رسولوں پر بروقت اترتی ہے ۔ دنیا کے جھٹکے جب زوروں پر ہوتے ہیں ، مخالفت جب تن جاتی ہے ، اختلاف جب بڑھ جاتا ہے ، دشمنی جب پوری ہو جاتی ہے ، انبیاء اللہ کو جب چاروں طرف سے گھیر لیا جاتا ہے ، معاً اللہ کی مدد آ پہنچتی ہے ۔ «کُذِبُوا» اور «کُذِّبُوْا» دونوں قرأتیں ہیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی قرأت ذال کی تشدید سے ہے ، چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ سے پوچھا کہ یہ لفظ «کُذِبُوا» ہے یا «کُذِّبُوْا» ہے ؟ عائشہ نے فرمایا «کُذِّبُوْا» ہے ذال کی تشدید کے ساتھ ۔ انہوں نے کہا پھر تو یہ معنی ہوئے کہ رسولوں نے گمان کیا کہ وہ جھٹلائے گئے تو یہ گمان کی کون سی بات تھی یہ تو یقینی بات تھی کہ وہ جھٹلائے جاتے تھے ۔ آپ نے فرمایا بیشک یہ یقینی بات تھی کہ وہ کفار کی طرف سے جھٹلائے جاتے تھے لیکن وہ وقت بھی آئے کہ ایماندار امتی بھی ایسے زلزلے میں ڈالے گئے اور اس طرح ان کی مدد میں تاخیر ہوئی کہ رسولوں کے دل میں آئی کہ غالباً اب تو ہماری جماعت بھی ہمیں جھٹلانے لگی ہو گی ۔ اب مدد رب آئی ۔ اور انہیں غلبہ ہوا ۔ تم اتنا تو خیال کرو کہ (کُذِبوُا) کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے ؟ معاذاللہ کیا انبیاء علیہم السلام اللہ کی نسبت یہ بدگمانی کر سکتے ہیں کہ انہیں رب کی طرف سے جھٹلایا گیا ؟ (صحیح بخاری:4695) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں (کُُذِبوُا) ہے ۔ آپ اس کی دلیل میں آیت «حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ» ( 2- البقرۃ : 214 ) پڑھ دیتے تھے یعنی یہاں تک کہ انبیاء اور ایماندار کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کہاں ہے ۔ یاد رکھو مدد رب بالکل قریب ہے ۔ سیدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) اس کا سختی سے انکار کرتی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ جناب رسول اللہ نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے جتنے وعدے کئے ، آپ کو کامل یقین تھا کہ وہ سب یقینی اور حتمی ہیں اور سب پورے ہو کر ہی رہیں گے آخر دم تک کبھی نعوذ باللہ آب کے دل میں یہ وہم ہی پیدا نہیں ہوا کہ کوئی وعدہ ربانی غلط ثابت ہو گا ۔ یا ممکن ہے کہ غلظ ہو جائے یا پورا نہ ہو ۔ ہاں انبیاء علیہم السلام پر برابر بلائیں اور آزمائشیں آتی رہیں ، یہاں تک کہ ان کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہونے لگا کہ کہیں میرے ماننے والے بھی مجھ سے بدگمان ہو کر مجھے جھٹلا نہ رہے ہوں ۔ ایک شخص قاسم بن محمد کے پاس آ کر کہتا ہے کہ محمد بن کعب قرظی «کُذِبُوْا» پڑھتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان سے کہہ دو ۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے وہ «کُذِّبُوْا» پڑھتی تھیں یعنی ان کے ماننے والوں نے انہیں جھٹلایا ۔ پس ایک قرأت تو تشدید کے ساتھ ہے دوسری تخفیف کے ساتھ ہے ، پھر اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تو وہ مری ہے جو اوپر گزر چکا ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے یہ آیت اسی طرح پڑھ کر فرمایا یہی وہ ہے جو تو برا جانتا ہے ۔ یہ روایت اس روایت کے خلاف ہے ، جسے ان دونوں بزرگوں سے اوروں نے روایت کیا ہے ، اس میں ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا جب رسول ناامید ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی مانے گی اور قوم نے یہ سمجھ لیا کہ نبیوں نے ان سے جھوٹ کہا ، اسی وقت اللہ کی مدد آ پہنچی اور جسے اللہ نے چاہا نجات بخشی ۔ اسی طرح کی تفسیر اوروں سے بھی مروی ہے ۔ ایک نوجوان قریشی نے حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا کہ ہمیں بتائیے ، اس لفظ کو کیا پڑھیں ، مجھ سے تو اس لفظ کی قرأت کی وجہ سے ممکن ہے کہ اس سورت کا پڑھنا ہی چھوٹ جائے ۔ آپ نے فرمایا سنو اس کا مطلب یہ کہ انبیاء اس سے مایوس ہو گئے کہ ان کی قوم ان کی بات مانے گی اور قوم والے سمجھ بیٹھے کہ نبیوں نے غلط کہا ہے یہ سن کر ضحاک بن مزاحم بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس جیسا جواب کسی ذی علم کا میں نے نہیں سنا اگر میں یہاں سے یمن پہنچ کر بھی ایسے جواب کو سنتا تو میں اسے بھی بہت آسان جانتا ۔ مسلم بن یسار رحمہ اللہ نے بھی آپ کا یہ جواب سن کر اٹھ کر آپ سے معانقہ کیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ کی پریشانیوں کو بھی اسی طرح دور کر دے ، جس طرح آپ نے ہماری پریشانی دور فرمائی ۔ بہت سے اور مفسرین نے بھی یہی مطلب بیان کیا ہے بلکہ مجاہد رحمہ اللہ کی تو قرأت ذال کے زبر سے ہے یعنی «کُذِبُوا» ہاں بعض مفسرین «وَظَنٰوا» کا فاعل مومنوں کو بتاتے ہیں اور بعض کافرویں کو یعنی کافروں نے یا یہ کہ بعض مومنوں نے یہ گمان کیا کہ رسولوں سے جو وعدہ مدد کا تھا اس میں وہ جھوٹے ثابت ہوئے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں رسول ناامید ہو گئے یعنی اپنی قوم کے ایمان سے اور نصرت ربانی میں دیر دیکھ کر ان کو قوم گمان کرنے لگی کہ وہ جھوٹا وعدہ دئے گئے تھے ۔ پس یہ دونوں روایتیں تو ان دونوں بزرگ صحابیوں سے مروی ہیں ۔ اور سیدہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) اس کا صاف انکار کرتی ہیں ۔ ابن جریر رحمہ اللہ بھی قول صدیقہ کی طرفداری کرتے اور دوسرے قول کی تردید کرتے ہیں اور اسے ناپسند کر کے رد کر دیتے ہیں ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔