سورة یوسف - آیت 11

قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

انہوں نے کہا، اے ابا ! آپ یوسف کے بارے میں ہم پھر بھروسہ (١١) کیوں نہیں کرتے ہیں، حالانکہ ہم یقینا اس کے خیر خواہ ہیں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بڑے بھائی کی رائے پر اتفاق بڑے بھائی روبیل کے سمجھانے پر سب بھائیوں نے اس رائے پر اتفاق کر لیا کہ یوسف کو لے جائیں اور کسی غیر آباد کنویں میں ڈال آئیں ۔ یہ طے کرنے کے بعد باپ کو دھوکہ دینے اور بھائی کو پھسلا کر لے جانے اور اس پر آفت ڈھانے کے لیے سب مل کر باپ کے پاس آئے ۔ باوجودیکہ تھے یہ بد اندیش بد خواہ برا چاہنے والے لیکن باپ کو اپنی باتوں میں پھنسانے کے لیے اور اپنی گہری سازش میں انہیں الجھانے کے لیے پہلے ہی جال بچھاتے ہیں کہ ابا جی آخر کیا بات ہے جو آپ ہمیں یوسف کے بارے میں امین نہیں جانتے ؟ ہم تو اس کے بھائی ہیں اس کی خیر خواہیاں ہم سے زیادہ کون کر سکتا ہے ۔ ؟ «یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ» کی دوسری قرآت «ترتع و نلعب» بھی ہے ۔ باپ سے کہتے ہیں کہ بھائی یوسف کو کل ہمارے ساتھ سیر کے لیے بھیجئے ۔ ان کا جی خوش ہو گا ، دو گھڑی کھیل کود لیں گے ، ہنس بول لیں گے ، آزادی سے چل پھر لیں گے ۔ آپ بے فکر رہیے ہم سب اس کی پوری حفاظت کریں گے ۔ ہر وقت دیکھ بھال رکھیں گے ۔ آپ ہم پر اعتماد کیجئے ہم اس کے نگہبان ہیں ۔