فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ
پس جو قومیں تم سے پہلے تھیں ان میں ایسے عقلمند لوگ کیوں نہ ہوئے جو انہیں زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے (٩٤) ان میں سے کچھ کے سوا جنہیں ہم نے نجات دی تھی، اور ظالم لوگ اسی عیش و آرام کی راہ پر پڑے رہے جس کے وہ عادی ہوگئے تھے، اور وہ لوگ تھے ہی اہل جرائم۔
نیکی کی دعوت دینے والے چند لوگ یعنی سوائے چند لوگوں کے ہم گزشتہ زمانے کے لوگوں میں ایسے کیوں نہیں پاتے جو شریروں اور منکروں کو برائیوں سے روکتے رہیں ، یہی وہ ہیں جنہیں ہم اپنے عذاب سے بچا لیا کرتے ہیں ۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس امت میں ایسی جماعت کی موجودگی کا قطعی اور فرضی حکم دیا ۔ فرمایا «وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ» ۱؎ (3-آل عمران:104) ’ بھلائی اور نیکی کی دعوت دینے والی ایک جماعت تم میں ہر وقت موجود رہنی چاہیئے ‘ ، الخ ۔ ظالموں کا شیوہ یہی ہے کہ وہ اپنی بدعادتوں سے باز نہیں آتے ۔ نیک علماء کے فرمان کی طرف توجہ بھی نہیں کریتے یہاں تک کہ اللہ کے عذاب ان کی بے خبری میں ان پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ بھلی بستیوں پر اللہ کی طرف سے از راہ ظلم عذاب کبھی آتے ہی نہیں ۔ آیت میں ہے «وَمَا ظَلَمْنَاہُمْ وَلٰکِن ظَلَمُوا أَنفُسَہُمْ» ۱؎ (11-ھود:101) ’ ہم ظلم سے پاک ہیں لیکن خود ہی وہ اپنی جانوں پر مظالم کرنے لگتے ہیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «وَمَا رَبٰکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیدِ» ۱؎ (41-فصلت:46) ’ تمہارا پروردگار بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ‘ ۔