سورة ھود - آیت 114

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور آپ دن کے دونوں طرف اور رات گئے نماز (٩٣) قائم کیجیے، بیشک اچھائیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں، یہ اللہ کو یاد کرنے والوں کو نصیحت کی جارہی ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اوقات نماز کی نشاندہی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کہتے ہیں ” دن کے دونوں سرے سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے “ ۔ قتادہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا قول ہے کہ ” پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز رات کی گھڑیوں سے مراد عشاء کی نماز ۔ “ بقول مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ ” مغرب و عشاء کی “ ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18648:مرسل) نیکیوں کو کرنا گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے ۔ سنن میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” جس مسلمان سے کوئی گناہ ہو جائے پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے ، تو اللہ اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے “ } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:1521 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح) { ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے پھر دو رکعت نماز ادا کرے ، جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:159) مسند میں ہے کہ { آپ رضی اللہ عنہ نے پانی منگوایا ، وضو کیا ، پھر فرمایا ” میرے اس وضو کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے اور کھڑا ہو کر ظہر کی نماز ادا کرے ، اس کے صبح سے لے کر اب تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ، پھر عصر کی نماز پڑھے ، تو ظہر سے عصر تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ، پھر مغرب کی نماز ادا کرے ، تو عصر سے لے کر مغرب تک کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں ۔ پھر عشاء کی نماز سے مغرب سے عشاء تک کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر یہ سوتا ہے لوٹ پوٹ ہوتا ہے پھر صبح اُٹھ کر نماز فجر پڑھ لینے سے عشاء سے لے کر صبح کی نماز تک کے سب گناہ بخش دئیے جاتے ہیں ۔ یہی ہیں وہ بھلائیاں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:71/1:صحیح) صحیح حدیث میں { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” بتلاؤ تو اگر تم میں سے کسی کے مکان کے دروازے پر ہی نہر جاری ہو اور وہ اس میں ہر دن پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو کیا اس کے جسم پر ذرا سی بھی میل باقی رہ جائے گا ؟ “ ، لوگوں کے نے کہا ہرگز نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بس یہی مثال ہے ۔ پانچ نمازوں کی کہ ان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خطائیں اور گناہ معاف فرما دیتا ہے “ } ۔ (صحیح بخاری:528) صحیح مسلم شریف میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” پانچوں نمازیں اور جمعہ جمعہ تک اور رمضان رمضان تک کا کفارہ ہے جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا جائے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:233) مسند احمد میں ہے { ہر نماز اپنے سے پہلے کی خطاؤں کو مٹا دیتی ہے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:413/5:حسن) بخاری میں ہے کہ { کسی شخص نے ایک عورت کا بوسہ لے لیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے اس گناہ کی ندامت ظاہر کی ۔ اس پر یہ آیت اتری اس نے کہا کیا میرے لیے ہی یہ مخصوص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ” نہیں بلکہ میری ساری امت کے لیے یہی حکم ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:526) ایک اور روایت میں ہے کہ { اس نے کہا ” میں نے باغ میں اس عورت سے سب کچھ کیا ، ہاں جماع نہیں کیا اب میں حاضر ہوں جو سزا میرے لیے آپ تجویز فرمائیں میں برداشت کر لوں گا “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔ وہ چلا گیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی اگر یہ بھی اپنے نفس کی پردہ پوشی کرتا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم برابر اسی شخص کی طرف دیکھتے رہے پھر فرمایا : ” اسے واپس بلا لاؤ “ ۔ جب وہ آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اس پر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا یہ اسی کے لیے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں بلکہ سب لوگوں کے لیے ہے “ } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2763) مسند احمد میں ہے ، { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { اللہ تعالیٰ نے جس طرح تم میں روزیاں تقسیم فرمائیں ہیں ، اخلاق بھی تقسیم فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جس سے خوش ہو اور اسے بھی جس سے غضبناک ہو ۔ لیکن دین صرف انہیں کو دیتا ہے جن سے اسے محبت ہو ۔ پس جسے دین مل جائے یقیناً اللہ تعالیٰ اس سے محبت رکھتا ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اور اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے ۔ اور بندہ ایماندار نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بے فکر نہ ہو جائیں } ۔ لوگوں نے پوچھا ایذائیں کیا کیا ؟ فرمایا : { دھوکہ اور ظلم ۔ سنو جو شخص مال حرام کمائے پھر اس میں سے خرچ کرے اللہ اسے برکت سے محروم رکھتا ہے ۔ اگر وہ اس میں سے صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا ۔ اور جتنا کچھ اپنے بعد باقی چھوڑ مرے وہ سب اس کے لیے آگ دوزخ کا توشہ بنتا ہے ۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو بھلائی سے مٹاتا ہے } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:387/1:صحیح موقوفا ضعیف مرفوعا) مسند احمد میں ہے کہ { ایک شخص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ ” ایک عورت سودا لینے کے لیے آتی تھی افسوس کہ میں اسے کوٹھڑی میں لے جا کر اس سے بجز جماع کے اور ہر طرح لطف اندوز ہوا ۔ اب جو اللہ کا حکم ہو وہ مجھ پر جاری کیا جائے “ ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” شاید اس کا خاوند غیر حاضر ہوگا “ ۔ اس نے کہا جی ہاں یہ بات تھی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” تم جاؤ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھو “ ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی یہی سوال کیا پس آپ رضی اللہ عنہ نے بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرح فرمایا ۔ پھر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی حالت بیان کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { شاید اس کا خاوند اللہ کی راہ میں گیا ہوا ہوگا ؟ } پس قرآن کریم کی یہ آیت اتری تو کہنے لگا ” کیا یہ خاص میرے لیے ہی ہے “ ؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ” نہیں اس طرح صرف تیری ہی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہو سکتیں بلکہ یہ سب لوگوں کے لیے عام ہے “ ۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { عمر سچے ہیں } } ۔ ۱؎ (مسند احمد:245/1:ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ { وہ عورت مجھ سے ایک درہم کی کھجوریں خریدنے آئی تھی تو میں نے اسے کہا کے اندر کوٹھڑی میں اس سے بہت اچھی کھجوریں ہیں وہ اندر گئی میں نے بھی اندر جا کر اسے چوم لیا ۔ پھر وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اللہ سے ڈر اور اپنے نفس پر پردہ ڈالے رہ “ ۔ لیکن ابو الیسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھ سے صبر نہ ہو سکا ۔ میں نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” افسوس تو نے ایک غازی مرد کی اس غیر حاضری میں ایسی خیانت کی ۔ میں نے تو یہ سن کر اپنے آپ کو جہنمی سمجھ لیا اور میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میرا اسلام اس کے بعد کا ہوتا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذرا سی دیر اپنی گردن جھکا لی اسی وقت جبرائیل یہ آیت لے کر اترے “ } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3115،قال الشیخ الألبانی:حسن) ابن جریر میں ہے کہ { ایک شخص نے آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی اللہ کی مقرر کردہ حد مجھ پر جاری کیجئے ۔ ایک دو دفعہ اس نے یہ کہا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا ۔ پھر جب نماز کھڑی ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو نے اچھی طرح وضو کیا ؟ اور ہمارے ساتھ نماز پڑھی “ ۔ اس نے کہا جی ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بس تو تو ایسا ہی ہے جیسے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔ خبردار اب کوئی ایسی حرکت نہ کرنا “ ۔ اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:18694:) ابوعثمان رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ میں سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا ۔ انہوں نے ایک درخت کی خشک شاخ پکڑ کے اسے جھنجھوڑا تو تمام خشک پتے جھڑ گئے پھر فرمایا ” ابوعثمان تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے یہ کیوں کیا ؟ “ میں نے کہا ہاں جناب ارشاد ہو ، فرمایا ” اسی طرح میرے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ، پھر فرمایا : جب بندہ مسلمان اچھی طرح وضو کر کے پانچوں نمازیں ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ ایسے ہی چھڑ جاتے ہیں جیسے اس خشک شاخ کے پتے جھڑ گئے ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ ۱؎ (مسند احمد:437/5:حسن) مسند میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” برائی اگر کوئی ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لو کہ اسے مٹا دے ۔ اور لوگوں سے خوش اخلاقی سے ملا کرو “ } ۔ ۱؎ (مسند احمد:228/5:حسن) اور حدیث میں ہے { جب تجھ سے کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے پیچھے ہی نیکی کر لیا کر تاکہ یہ اسے مٹا دے میں نے کہا : یا رسول اللہ ! کیا «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» پڑھنا بھی نیکی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ تو بہترین اور افضل نیکی ہے “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:361/3:حسن) ابو یعلیٰ میں ہے { دن رات کے جس وقت میں کوئی «لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ» پڑھے اس کے نامہ اعمال میں سے برائیاں مٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ ان کی جگہ ویسی ہی نیکیاں ہو جاتی ہیں } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3611:ضعیف) اس کے راوی عثمان میں ضعف ہے ۔ مسند بزار میں ہے { ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! میں نے کوئی خواہش ایسی نہیں چھوڑی جسے پوری نہ کی ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” کیا تو اللہ کے ایک ہونے کی اور میری رسالت کی گواہی دیتا ہے ؟ “ اس نے کہا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { بس یہ ان سب پر غالب رہے گی } ۔ ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:3433/6:صحیح)