قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ
انہوں نے کہا اے شعیب ! تمہاری بہت سی باتیں ہم نہیں سمجھتے (٧٦) اور ہم تو تمہیں اپنے درمیان کمزور دیکھ رہے ہیں، اور اگر تمہارے خاندان کا خیال نہ ہوتا تو تمہیں پتھروں سے مار مار کر ختم کردیتے، اور ہماری نظر میں تمہاری کوئی عزت نہیں ہے۔
قوم مدین کا جواب اور اللہ کا عتاب قوم مدین نے کہا کہ ” اے شعیب ! آپ کی اکثر باتیں ہماری سمجھ میں تو آتی نہیں ۔ اور خود آپ بھی ہم میں بے انتہا کمزور ہیں “ ۔ سعید رحمہ اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ ” آپ علیہ السلام کی نگاہ کم تھی ۔ مگر آپ علیہ السلام بہت ہی صاف گو تھے ، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کو خطیب الانبیاء کا لقب حاصل تھا “ ۔ سدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ” اس وجہ سے کمزور کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام اکیلے تھے ۔ مراد اس سے آپ علیہ السلام کی حقارت تھی ۔ اس لیے کہ آپ علیہ السلام کے کنبے والے بھی آپ علیہ السلام کے دین پر نہ تھے “ ۔ کہتے ہیں کہ ” اگر تیری برادری کا لحاظ نہ ہوتا تو ہم تو پتھر مار مار کر تیرا قصہ ہی ختم کر دیتے ۔ یا یہ کہ تجھے دل کھول کر برا کہتے ۔ ہم میں تیری کوئی قدر و منزلت ، رفعت وعزت نہیں “ ۔ یہ سن کر آپ علیہ السلام نے فرمایا ” بھائیو ! تم مجھے میری قرابت داری کی وجہ سے چھوڑتے ہو ۔ اللہ کی وجہ سے نہیں چھوڑتے تو کیا تمہارے نزدیک قبیلے والے اللہ سے بھی بڑھ کر ہیں اللہ کے نبی کو برائی پہنچاتے ہوئے اللہ کا خوف نہیں کرتے افسوس تم نے کتاب اللہ کو پیٹھ پیچھے ڈال دیا ۔ اس کی کوئی عظمت و اطاعت تم میں نہ رہی ۔ خیر اللہ تعالیٰ تمہارے تمام حال احوال جانتا ہے وہ تمہیں پورا بدلہ دے گا “ ۔