وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۖ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
اور آپ جہاں کہیں بھی نکل کر جائیں (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کریں، اور بے شک آپ کے رب کی طرف سے یہی حق ہے، اور اے لوگو، اللہ تمہارے اعمال سے غافل نہیں ہے
تین بار نزول حکم یہ تیسری مرتبہ حکم ہو رہا ہے کہ روئے زمین کے مسلمانوں کو نماز کے وقت مسجد الحرام کی طرف منہ کرنا چاہیئے ۔ تین مرتبہ تاکید اس لیے کی گئی کہ یہ تبدیلی کا حکم پہلی بار واقع ہوا تھا ۔ فخرالدین رازی نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ پہلا حکم تو ان کے لیے ہے جو کعبہ کو دیکھ رہے ہیں ۔ دوسرا حکم ان کے لیے ہے جو مکہ میں ہیں لیکن کعبہ ان کے سامنے نہیں ۔ تیسری بار انہیں حکم دیا جو مکہ کے باہر روئے زمین پر ہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے ایک توجیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ پہلا حکم مکہ والوں کو ہے دوسرا اور شہر والوں کو تیسرا مسافروں کو بعض کہتے ہیں تینوں حکموں کا تعلق اگلی پچھلی عبارت سے ہے ۔ پہلے حکم میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طلب کا اور پھر اس کی قبولیت کا ذکر ہے اور دوسرے حکم میں اس بات کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ چاہت بھی ہماری چاہت کے مطابق تھی اور حق امر یہی تھا اور تیسرے حکم میں یہودیوں کی حجت کا جواب ہے کہ ان کی کتابوں میں پہلے سے موجود تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبلہ کعبہ ہو گا تو اس حکم سے وہ پیشینگوئی بھی پوری ہوئی ۔ ساتھ ہی مشرکین کی حجت بھی ختم ہوئی کہ وہ کعبہ کو متبرک اور مشرف مانتے تھے اور اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ بھی اسی کی طرف ہو گئی رازی وغیرہ نے اس حکم کو باربار لانے کی حکمتوں کو بخوبی تفصیل سے بیان کیا ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرمایا تاکہ اہل کتاب کوئی حجت تم پر باقی نہ رہے وہ جانتے تھے کہ امت کی طرح پہچان کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتا ہے جب وہ یہ صفت نہ پائیں گے تو انہیں شک کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جب انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قبلہ کی طرف پھرتے ہوئے دیکھ لیا تو اب انہیں کسی طرح کا شک نہ رہنا چاہیئے اور یہ بات بھی ہے کہ جب وہ تمہیں اپنے قبلہ کی طرف نمازیں پڑھتے ہوئے دیکھیں گے تو ان کے ہاتھ ایک بہانہ لگ جائے گا لیکن جب تم ابراہیمی قبلہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ گے تو وہ خالی ہاتھ رہ جائیں گے ، حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہود کی یہ حجت تھی کہ آج یہ ہمارے قبلہ کی طرف ہیں یعنی ہمارے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں کل ہمارا مذہب بھی مان لیں گے لیکن جب اپنے اللہ کے حکم سے اصلی قبلہ اختیار کر لیا تو ان کی اس ہوس پر پانی پڑ گیا- پھر فرمایا مگر جو ان میں سے ظالم اور ضدی مشرکین بطور اعتراض کہتے تھے کہ یہ شخص ملت ابراہیمی علیہ السلام پر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتا انہیں جواب بھی مل گیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے احکام کا متبع ہے پہلے ہم نے اپنی کمال حکمت سے انہیں بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا جسے وہ بجا لائے پھر ابراہیمی قبلہ کی طرف پھر جانے کو کہا جسے جان و دل سے بجا لائے پس آپ ہر حال میں ہمارے احکام کے ما تحت ہیں ( صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم ) پھر فرمایا ان ظالموں کے شبہ ڈالنے سے تم شک میں نہ پڑو ان باغیوں کی سرکشی سے تم خوف نہ کرو ان کے بے جان اعتراضوں کی مطلق پرواہ نہ کر وہاں میری ذات سے خوف کیا کرو صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو قبلہ بدلنے میں جہاں یہ مصلحت تھی کہ لوگوں کی زبانیں بند ہو جائیں وہاں یہ بھی بات تھی کہ میں چاہتا تھا کہ اپنی نعمت تم پر پوری کر دوں اور قبلہ کی طرح تمہاری تمام شریعت کامل کر دوں اور تمہارے دین کو ہر طرح مکمل کر دوں اور اس میں یہ ایک راز بھی تھا کہ جس قبلہ سے اگلی امتیں بہک گئیں تم اس سے نہ ہٹو ہم نے اس قبلہ کو خصوصیت کے ساتھ تمہیں عطا فرما کر تمہارا شرف اور تمہاری فضیلت و بزرگی تمام امتوں پر ثابت کر دی ۔