قَالُوا يَا شُعَيْبُ أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَن نَّتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ ۖ إِنَّكَ لَأَنتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ
انہوں نے کہا، اے شعیب ! کیا تمہاری نمازیں (٧٢) تمہیں حکم دیتی ہیں کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے، یا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں، بیشک تم تو بڑے ہی بردبار اور سمجھدار ہو۔
پرانے معبودوں سے دستبرداری سے انکار اعمش فرماتے ہیں صلواۃ سے مراد یہاں قرأت ہے ۔ وہ لوگ ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ واہ آپ اچھے رہے کہ آپ کو آپ کی قرآت نے حکم دیا کہ ہم باپ دادوں کی روش کو چھوڑ کر اپنے پرانے معبودوں کی عبادت سے دست بردار ہو جائیں ۔ یہ اور بھی لطف ہے کہ ہم اپنے مال کے بھی مالک نہ رہیں کہ جس طرح جو چاہیں اس میں تصرف کریں کسی کو ناپ تول میں کم نہ دیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” واللہ واقعہ یہی ہے کہ شعیب علیہ السلام کی نماز کا حکم یہی تھا کہ آپ علیہ السلام انہیں غیر اللہ کی عبادت اور مخلوق کے حقوق کے غصب سے روکیں “ ۔ ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” ان کے اس قول کا مطلب کہ جو ہم چاہیں ، اپنے مالوں میں کریں یہ ہے کہ زکوٰۃ کیوں دیں ؟ نبی اللہ علیہ السلام کو ان کا حلیم و رشید کہنا ازراہ مذاق و حقارت تھا “ ۔