قِيلَ يَا نُوحُ اهْبِطْ بِسَلَامٍ مِّنَّا وَبَرَكَاتٍ عَلَيْكَ وَعَلَىٰ أُمَمٍ مِّمَّن مَّعَكَ ۚ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُهُمْ ثُمَّ يَمَسُّهُم مِّنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ
کہا گیا، اے نوح ! اب آپ ہماری جانب سے سلامتی کے ساتھ کشتی سے نیچے اتر آیئے (٣٦) اور آپ پر اور آپ کے ساتھ جو مومنین ہیں، ان میں سے کچھ کی نسل سے پیدا ہونے والی جماعتوں پر ہماری برکتیں نازل ہوں گی، اور کچھ قوموں کو ہم دنیا میں آرام و آسائش دیں گے، پھر آخرت میں ہمارا دردناک عذاب انہیں اپنی گرفت میں لے لے گا۔
طوفان نوح کا آخری منظر کشتی ٹھہری اور اللہ کا سلام آپ علیہ السلام پر اور آپ علیہ السلام کے تمام مومن ساتھیوں پر اور ان کی اولاد میں سے قیامت تک جو ایماندار آنے والے ہیں سب پر نازل ہوا ۔ ساتھ ہی کافروں کے دنیوی فائدے سے مستفید ہونے اور پھر عذاب میں گرفتار ہونے کا بھی اعلان ہوا ۔ پس یہ آیت قیامت تک کے مومنوں کی سلامتی اور برکت اور کافروں کی سزا پر مبنی ہے ۔ امام ابن اسحاق کا بیان ہے کہ ” جب جناب باری جل شانہ نے طوفان بند کرنے کا ارادہ فرما لیا تو روئے زمین پر ایک ہوا بھیج دی جس نے پانی کو ساکن کر دیا اور اس کا اُبلنا بند ہو گیا ساتھ ہی آسمان کے دروازے بھی جو اب تک پانی برسا رہے تھے بند کر دئیے گئے ۔ زمین کو پانی کے جذب کر لینے کا حکم ہو گیا اسی وقت پانی کم ہونا شروع ہو گیا اور بقول اہل توراۃ کے ساتویں مہینے کی سترہویں تاریخ کشتی نوح ” جودی “ پر لگی ۔ دسویں مہینے کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں کھل گئیں ۔ اس کے چالیس دن کے بعد کشتی کے روزن پانی کے اوپر دکھائی دینے لگے ۔ پھر آپ علیہ السلام نے کوے کو پانی کی تحقیق کے لیے بھیجا لیکن وہ پلٹ کر نہ آیا ، آپ علیہ السلام نے کبوتر کو بھیجا جو واپس آیا ۔ اپنے پاؤں رکھنے کو اسے جگہ نہ ملی ، آپ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ پر لے کر اسے اندر لے لیا ، پھر ساتھ دن کے بعد اسے دوبارہ بھیجا ۔ شام کو وہ واپس آیا ، اپنی چونچ میں زیتون کا پتہ لیے ہوئے تھا اس سے اللہ کے نبی علیہ السلام نے معلوم کر لیا کہ پانی زمین سے کچھ ہی اونچا رہ گیا ہے ۔ پھر سات دن کے بعد بھیجا اب کی مرتبہ وہ نہ لوٹا تو آپ علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ زمین بالکل خشک ہو چکی ہے ۔ الغرض پورے ایک سال کے بعد نوح علیہ السلام نے کشتی کا سرپوش اٹھایا اور آواز آئی کہ اے نوح ہماری نازل کردہ سلامتی کے ساتھ اب اتر آؤ الخ ۔