سورة یونس - آیت 90

وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر (٥٩) پار کرادیا، تو فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی میں آکر اور حد سے تجاوز کرتے ہوئے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو کہا، میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں سوائے اس کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں اب فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

دریائے نیل، فرعون اور قوم بنی اسرائیل فرعون اور اس کے لشکریوں کے غرق ہونے کا واقعہ بیان ہو رہا ہے ۔ بنی اسرائل جب اپنے نبی کے ساتھ چھ لاکھ کی تعداد میں جو بال بچوں کے علاوہ تھی ، مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور فرعون کو یہ خبر پہنچی تو اس نے بڑا ہی تاؤ کھایا اور زبردست لشکر جمع کرکے اپنے تمام لوگوں کو لے کر ان کے پیچھے لگا ۔ اس نے تمام لاؤ لشکر کو تمام سرداروں ، فوجوں ، رشتے کنبے کے تمام لوگوں اور کل ارکان سلطنت کو اپنے ساتھ لے لیا تھا ۔ اپنے پورے ملک میں کسی صاحب حیثیت شخص کو باقی نہیں چھوڑا تھا ۔ بنی اسرائیل جس راہ گئے تھے اسی راہ یہ بھی بہت تیزی سے جا رہا تھا ۔ ٹھیک سورج چڑھے ، اس نے انہیں اور انہوں نے اسے دیکھ لیا ۔ بنی اسرائیل گھبرا گئے اور موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے «فَلَمَّا تَرَاءَی الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَیٰ إِنَّا لَمُدْرَکُونَ» ۱؎ (26-الشعراء:61) ’ لو اب پکڑ لیے گئے ‘ کیونکہ سامنے دریا تھا اور پیچھے لشکر فرعون نہ آگے بڑھ سکتے تھے نہ پیچھے ہٹ سکتے تھے ۔ آگے بڑھتے تو ڈوب جاتے پیچھے ہٹے تو قتل ہوتے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں تسکین دی اور فرمایا «‏‏‏‏کَلَّا إِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَہْدِینِ» ۱؎ (26-الشعراء:62) ’ میں اللہ کے بتائے ہوئے راستے سے تمہیں لے جا رہا ہوں ‘ ۔ میرا رب میرے ساتھ ہے ، وہ مجھے کوئی نہ کوئی نجات کی راہ بتلا دے گا ، تم بے فکر رہو ، وہ سختی کو آسانی سے تنگی کو فراخی سے بدلنے پر قادر ہے ۔ اسی وقت وحی ربانی آئی کہ ’ اپنی لکڑی دریا پر مار دے ‘ ۔ آپ علیہ السلام نے یہی کیا ۔ «فَکَانَ کُلٰ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیمِ» ‏‏‏‏ ۱؎ (26-الشعراء:63) اس وقت پانی پھٹ گیا ، راستے دے دئیے اور پہاڑوں کی طرح پانی کھڑا ہوگیا ۔ ان کے بارہ قبیلے تھے بارہ راستے دریا میں بن گئے ۔ «فَاضْرِبْ لَہُمْ طَرِیقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخَافُ دَرَکًا وَلَا تَخْشَیٰ» ‏‏‏‏۱؎ (20-طہ:77) تیز اور سوکھی ہوائیں چل پڑیں جس نے راستے خشک کر دیئے اب نہ تو فرعونیوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہونے کا کھٹکا رہا نہ پانی میں ڈوب جانے کا ۔ ساتھ ہی قدرت نے پانی کی دیواروں میں طاق اور سوراخ بنا دیئے کہ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ کو بھی دیکھ سکے ۔ تاکہ دل میں یہ خدشہ بھی نہ رہے کہ کہیں وہ ڈوب نہ گیا ہو ۔ بنو اسرائیل ان راستوں سے جانے لگے اور دریا پار اتر گئے ۔ انہیں پار ہوتے ہوئے فرعونی دیکھ رہے تھے ۔ جب یہ سب کے سب اس کنارے پہنچ گئے اب لشکر فرعون بڑھا اور سب کے سب دریا میں اتر گئے ان کی تعداد کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس ایک لاکھ گھوڑے تو صرف سیاہ رنگ کے تھے جو باقی رنگ کے تھے ان کی تعداد کا خیال کر لیجئے ۔ فرعون بڑا کائیاں تھا ۔ دل سے موسیٰ علیہ السلام کی صداقت جانتا تھا ۔ اسے یہ رنگ دیکھ کر یقین ہو چکا تھا کہ یہ بھی بنی اسرائیل کی غیبی تائید ہوئی ہے وہ چاہتا تھا کہ یہاں سے واپس لوٹ جائے لیکن موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول ہو چکی تھی ۔ قدرت کا قلم چل چکا تھا ۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام گھوڑے پر سوار آ گئے ۔ ان کے جانور کے پیچھے فرعون کا گھوڑا لگ گیا ۔ آپ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا ۔ فرعون کا گھوڑا اسے گھسیٹتا ہوا دریا میں اتر گیا ۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز لگائی کہ بنی اسرائیل گزر گئے اور تم یہاں ٹھیر گئے ۔ چلو ان کے پیچھے اپنے گھوڑے بھی میری طرح دریا میں ڈال دو ۔ اسی وقت ساتھیوں نے بھی اپنے گھوڑوں کو مہمیز کیا ۔ میکائیل علیہ السلام ان کے پیچھے تھا کیونکہ ان کے جانوروں کو ہنکائیں غرض بغیر ایک کے بھی باقی رہے سب دریا میں اتر گئے ۔ جب یہ سب اندر پہنچ گئے اور ان کا سب سے آگے کا حصہ دوسرے کنارے کے قریب پہنچ چکا ، اسی وقت جناب باری قادر و قیوم کا دریا کو حکم ہوا اب مل جا اور ان کو ڈبو دے ۔ پانی کے پتھر بنے ہوئے پہاڑ فوراً پانی ہو گئے اور اسی وقت یہ سب غوطے کھانے لگے اور فوراً ڈوب گئے ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا ۔ پانی کی موجوں نے انہیں اوپر تلے کر کر کے ان کے جوڑ جوڑ الگ الگ کر دئیے ۔ فرعون جب موجوں میں پھنس گیا اور سکرات موت کا اسے مزہ آنے لگا تو کہنے لگا کہ میں لاشریک رب واحد پر ایمان لاتا ہوں ۔ جس پر بنو اسرائیل ایمان لائے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ عذاب کے دیکھ چکنے کے بعد عذاب کے آجانے کے بعد ایمان سود مند نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو فرما چکا ہے اور یہ قاعدہ جاری کر چکا ہے ۔ اسی لیے فرعون کو جواب ملا کہ «فَلَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا قَالُوا آمَنَّا بِ اللہِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ فَلَمْ یَکُ یَنفَعُہُمْ إِیمَانُہُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللہِ الَّتِی قَدْ خَلَتْ فِی عِبَادِہِ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُونَ» ‏‏‏‏ ۱؎ (40-غافر:84-85) ’ اس وقت یہ کہتا ہے حالانکہ اب تک شر وفساد پر تلا رہا ۔ پوری عمر اللہ کی نافرمانیاں کرتا رہا ، ملک میں فساد مچاتا رہا ، خود گمراہ ہو کر اوروں کو بھی راہ حق سے روکتا رہا ، لوگوں کو جہنم کی طرف بلانے کا امام تھا ، قیامت کے دن بے یارومددگار رہے گا ‘ ۔ فرعون کا اس وقت کا قول اللہ تعالیٰ علام الغیوب نے اپنے علم غیب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ { اس واقعے کی خبر دیتے وقت جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہوتے اور دیکھتے کہ میں اس کے منہ میں کیچڑ ٹھونس رہا تھا اس خیال سے کہ کہیں اس کی بات پوری ہونے پر اللہ کی رحمت اس کی دست گیری نہ کرلے } ۔ (سنن ترمذی:3107 ، قال الشیخ الألبانی:صحیح لغیرہ) ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” ڈوبتے وقت فرعون نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اپنے ایمان کا اقرار کرنا شروع کیا جس پر جبرائیل علیہ السلام نے اس کے منہ میں مٹی بھرنی شروع کی ۔ اس فرعون کثیر بن زاذان ملعون کا منہ جبرائیل علیہ السلام اس وقت بند کر رہے تھے اور اس کے منہ کیچڑ ٹھونس رہے تھے “ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ کہتے ہیں کہ بعض بنی اسرائیل کو فرعون کی موت میں شک پیدا ہوگیا تھا ، اس لیے اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا کہ اس کی لاش بلند ٹیلے پر خشکی میں ڈال دے تاکہ یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور ان کا معائنہ کرلیں ۔ چنانچہ اس کا جسم معہ اس کے لباس کے خشکی پر ڈال دیا گیا تاکہ بنی اسرائیل کو معلوم ہو جائے اور ان کے لیے نشانی اور عبرت بن جائے اور وہ جان لیں کہ غضب الٰہی کو کوئی چیز دفع نہیں کر سکتی ۔ باوجود ان کھلے واقعات کے بھی اکثر لوگ ہماری آیتوں سے غفلت برتتے ہیں ۔ کچھ نصیحت حاصل نہیں کرتے ۔ ان فرعونیوں کا غرق ہونا اور موسیٰ علیہ السلام کا مع مسلمانوں کے نجات پانا عاشورے کے دن ہوا تھا ۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ { جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں آئے تو یہودیوں کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ۔ وہ کہتے تھے کہ اسی دن موسیٰ علیہ السلام فرعون پر غالب آئے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ تم تو موسیٰ علیہ السلام کے بہ نسبت ان کے زیادہ حقدار ہو تم بھی اس عاشورے کے دن کا روزہ رکھو } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1130)