لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جو لوگ نیک عمل (٢٤) کریں گے انہیں جنت ملے گی، اور اللہ کا دیدار نصیب ہوگا، اور ان کے چہروں پر نہ غم کی سیاہی ہوگی اور نہ رسوائی کے آثار، وہی لوگ جنتی ہوں گے، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی یہاں جس نے نیک اعمال کئے اور با ایمان رہا وہاں اسے بھلائیاں اور نیک بدلے ملیں گے ۔ «ہَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ» ۱؎ (55-الرحمن:60) ’ احسان کا بدلہ احسان ہے ‘ ۔ ایک ایک نیکی بڑھا چڑھا کر زیادہ ملے گی ایک کے بدلے سات سات سو تک ۔ جنت حور قصور وغیرہ وغیرہ آنکھوں کی طرح طرح کی ٹھنڈک ، دل کی لذت اور ساتھ ہی اللہ عزوجل کے چہرے کی زیارت یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم ہے ۔ بہت سے سلف خلف صحابہ وغیرہ سے مروی ہے کہ زیادہ سے مراد اللہ عزوجل کا دیدار ہے ۔ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا : { جب جنتی جنت میں اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے اور اس وقت ایک منادی کرنے والا ندا کرے گا کہ اے جنتیو ! تم سے اللہ کا ایک وعدہ ہوا تھا ، اب وہ بھی پورا ہونے کو ہے ۔ یہ کہیں گے «اَلْحَمْدُ لِلہِ» ہمارے میزان بھاری ہوگئے ، ہمارے چہرے نورانی ہوگئے ، ہم جنت میں پہنچ گئے ، ہم جہنم سے دور ہوئے ، اب کیا چیز باقی ہے ؟ اس وقت حجاب ہٹ جائے گا اور یہ اپنے پاک پرودگار کا دیدار کریں گے ۔ واللہ کسی چیز میں انہیں وہ لذت و سرور نہ حاصل ہوا ہو گا جو دیدار الٰہی میں ہوگا } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:181) اور حدیث میں کہ { منادی کہے گا حسنیٰ سے مراد جنت تھی اور زیارت سے مراد دیدار الٰہی تھا } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:سخت ضعیف) ایک حدیث میں یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مروی ہے ۔ میدان محشر میں ان کے چہروں پر سیاہی نہ ہوگی نہ ذلت ہوگی ۔ جیسے کہ کافروں کے چہروں پر یہ دونوں چیزیں ہوں گی ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:17633:ضیعف) غرض ظاہر اور باطنی اہانت سے وہ دور ہوں گے ۔ چہرے پر نور دل راحتوں سے مسرور ۔ اللہ ہمیں بھی انہیں میں کرے آمین ۔