وَإِذَا مَسَّ الْإِنسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنبِهِ أَوْ قَاعِدًا أَوْ قَائِمًا فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَن لَّمْ يَدْعُنَا إِلَىٰ ضُرٍّ مَّسَّهُ ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْمُسْرِفِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور جب انسان کو تکلیف (١٢) پہنچتی ہے تو اپنے پہلو کے بل یا بیٹھے یا کھڑے ہر حال میں ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اس کی تکلیف کو دور کردیتے ہیں تو اس طرح گزر جاتا ہے کہ گویا اس نے اس تکلیف کو دور کرنے کے لیے جو اسے پہنچی تھی ہمیں پکارا ہی نہیں تھا، حد سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ان کے اعمال اسی طرح خوبصورت بنا دیے جاتے ہیں۔
مومن ہر حال میں اللہ کا شکر بجا لاتے ہیں اسی آیت جیسی یہ آیت ہے : «وَإِذَا مَسَّہُ الشَّرٰ فَذُو دُعَآءٍ عَرِیضٍ» ۱؎ (41-فصلت:51) یعنی ’ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بڑی لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے ‘ ۔ ہر وقت اٹھتے بیٹھے لیٹتے اللہ سے اپنی تکلیف کے دور ہونے کی التجائیں کرتا ہے ۔ لیکن جہاں دعا قبول ہوئی تکلیف دور ہوئی اور ایسا ہو گیا جیسے کہ نہ اسے کبھی تکلیف پہنچی تھی نہ اس نے کبھی دعا کی تھی ۔ ایسے لوگ حد سے گزر جانے والے ہیں اور انہیں اپنے ایسے ہی گناہ اچھے معلوم ہوتے ہیں ۔ ہاں ایماندار ، نیک اعمال ، ہدایت و رشد والے ایسے نہیں ہوتے ۔ حدیث شریف میں ہے { مومن کی حالت پر تعجب ہے ، اس کے لیے ہر الٰہی فیصلہ اچھا ہی ہوتا ہے ۔ اسے تکلیف پہنچی اس نے صبر و استقامت اختیار کی اور اسے نیکیاں ملیں ۔ اسے راحت پہنچی ، اس نے شکر کیا ، اس پر بھی نیکیاں ملیں ، یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2999)