يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
اے نبی ! کافروں اور منافقوں سے جہاد کیجئے (55) اور ان پر سختی کیجئے، اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بہت بری جگہ ہے
چار تلواریں؟ کافروں منافقوں سے جہاد کا اور ان پر سختی کا حکم ہوا ، مومنوں سے جھک کر ملنے کا حکم ہوا ، کافروں کی اصلی جگہ جہنم مقرر فرما دی ، پہلے حدیث گذر چکی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے چار تلواروں کے ساتھ مبعوث فرمایا ایک تلوار تو مشرکوں میں ، فرماتا ہے « فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْہُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:5) حرمت والے مہینوں کے گذرتے ہی مشرکوں کی خوب خبر لو ، دوسری تلوار اہل کتاب کے کفار میں ، فرماتا ہے ، «قَاتِلُوا الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ» ۱؎ (9-التوبۃ:29) الخ جو اللہ تعالیٰ پر قیامت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اللہ اور رسول ﷺ کے حرام کئے ہوئے کو حرام نہیں مانتے ، دین حق کو قبول نہیں کرتے ، ان اہل کتاب سے جہاد کرو جب تک کہ وہ ذلت کے ساتھ جھک کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دینا منظور نہ کر لیں ، تیسری تلوار منافقین میں ، ارشاد ہوتا ہے ۔ «جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ» ۱؎ (9-التوبۃ:73) (66-التحریم:9)کافروں اور منافقوں سے جہاد کرو ۔ چوتھی تلوار باغیوں میں ، فرمان ہے «فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِی حَتَّیٰ تَفِیءَ إِلَیٰ أَمْرِ اللہِ » ۱؎ (49-الحجرات:9) باغیوں سے لڑو جب تک کہ پلٹ کر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی حکم برداری کی طرف نہ آ جائیں ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ منافق جب اپنا نفاق ظاہر کرنے لگیں تو ان سے تلوار سے جہاد کرنا چاہیئے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کا پسندیدہ قول بھی یہی ہے ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہاتھ سے نہ ہو سکے تو ان کے منہ پر ڈانٹ ڈپٹ سے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کافروں سے تو تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا حکم دیا ہے اور منافقوں کے ساتھ زبانی جہاد کو فرمایا ہے اور یہ کہ ان پر نرمی نہ کی جائے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کا بھی تقریباً یہی قول ہے ۔ ان پر حد شرعی کا جاری کرنا بھی ان سے جہاد کرنا ہے مقصود یہ ہے کہ کبھی تلوار بھی ان کے خلاف اٹھانی پڑے گی ورنہ جب تک کام چلے زبان کافی ہے جیسا موقعہ ہو کر لے ۔ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ انہوں نے ایسی کوئی بات زبان سے نہیں نکالی ، حالانکہ درحقیقت کفر کا بول بول چکے ہیں اور اپنے ظاہری اسلام کے بعد کھلا کفر کر چکے ہیں ۔ یہ آیت عبداللہ بن ابی کے بارے میں اتری ہے ۔ ایک جہنی اور ایک انصاری میں لڑائی ہو گئی ۔ جہنی شخص انصار پر چھا گیا تو اس منافق نے انصار کو اس کی مدد پر ابھارا اور کہنے لگا واللہ ! ہماری اور اس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تو وہی مثال ہے کہ ” اپنے کتے کو موٹا تازہ کر کہ وہ تجھے ہی کاٹے “ ۔ واللہ ! اگر ہم اب کی مرتبہ مدینے واپس گئے تو ہم ذی عزت لوگ ان تمام کمینے لوگوں کو وہاں سے نکال کر باہر کریں گے ۔ ایک مسلمان نے جا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ گفتگو دہرادی ۔ آپ ﷺ نے اسے بلوا کر اس سے سوال کیا تو یہ قسم کھا کر انکار کر گیا ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔ ۱؎ (9-التوبۃ:29) سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری قوم کے جو لوگ حرہ کی جنگ میں کام آئے ان پر مجھے بڑی ہی رنج و صدمہ ہو رہا تھا ۔ اس کی خبر سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے مجھے خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے آپ ﷺ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! انصار کو اور انصار کے لڑکوں کو بخش دے ۔ نیچے کے راوی ابن الفضل کو اس میں شک ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی اس دعا میں ان کے پوتوں کا نام بھی لیا یا نہیں ؟ پس سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے موجود لوگوں میں سے کسی سے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی نسبت سوال کیا تو اس نے کہا یہی وہ زید رضی اللہ عنہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ۔ واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ ایک منافق نے کہا اگر یہ سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی زیادہ احمق ہیں ۔ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا واللہ ! نبی کریم صلی اللہ علی وسلم بالکل سچے ہیں اور بیشک تو اپنی حماقت میں گدھے سے بڑھا ہوا ہے ۔ پھر آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش گذار کی ، لیکن وہ منافق پلٹ گیا اور صاف انکار کر گیا اور کہا کہ زید نے جھوٹ بولا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور سیدنا زید رضی اللہ عنہ کی سچائی بیان فرمائی ۔ لیکن مشہور بات یہ ہے کہ یہ واقعہ غزوہ بنی المطلق کا ہے ممکن ہے راوی کو اس آیت کے ذکر میں وہم ہو گیا ہو اور دوسری آیت کے بدلے اسے بیان کر دیا ہو ۔ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے ۱؎ (صحیح بخاری:4906) لیکن اس جملے تک کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ وہ ہیں جن کے کانوں کی سنی ہوئی بات کی سچائی کی شہادت خود رب علیم نے دی ، ممکن ہے کہ بعد کا حصہ موسیٰ بن عقبہ راوی کا اپنا قول ہو ، اسی کی ایک روایت میں یہ پچھلا حصہ ابن شہاب کے قول سے مروی ہے واللہ اعلم ۔ مغازی اموی میں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ تبوک کے واقعہ کے بعد ہے کہ جو منافق مؤخر چھوڑ دیئے گئے تھے اور جن کے بارے میں قرآن نازل ہوا ان میں سے بعض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی تھے ۔ ان میں جلاس بن سوید بن صامت بھی تھا ان کے گھر میں عمیر بن سعد کی والدہ تھیں جو اپنے ساتھ سیدنا عمیر رضی اللہ عنہ کو بھی لے گئی تھیں ۔ جب ان منافقوں کے بارے میں قرآنی آیتیں نازل ہوئیں تو جلاس کہنے لگا کہ واللہ ! اگر یہ شخص اپنے قول میں سچا ہے تو ہم تو گدھوں سے بھی بدتر ہیں سیدنا عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ یہ سن کر فرمانے لگے کہ یوں تو آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں اور آپ کی تکلیف مجھ پر میری تکلیف سے بھی زیادہ شاق ہے لیکن آپ نے اسوقت تو ایسی بات منہ سے نکالی ہے کہ اگر میں اسے پہنچاؤں تو رسوائی ہے اور نہ پہنچاؤں تو ہلاکت ہے ، رسوائی یقیناً ہلاکت سے ہلکی چیز ہے ۔ یہ کہہ کر یہ بزرگ حاضر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے اور ساری بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ سنائی ۔ جلاس کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے سرکار نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر قسمیں کھا کھا کر کہا کہ عمیر جھوٹا ہے میں نے یہ بات ہرگز نہیں کہی ۔ اس پر یہ آیت اتری ۔ مروی ہے کہ اس کے بعد جلاس نے توبہ کر لی اور درست ہو گئے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:17464) یہ توبہ کی بات بہت ممکن ہے کہ امام محمد بن اسحاق کی اپنی کہی ہوئی ہو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کی یہ بات نہیں ، واللہ اعلم ، اور روایت میں ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت اپنے سوتیلے بیٹے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ قباء سے آ رہے تھے دونوں گدھوں پر سوار تھے اس وقت جلاس نے یہ کہا تھا اس پر ان کے صاحبزادے نے فرمایا کہ ” اے دشمن رب ! میں تیری اس بات کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دوں گا “ فرماتے ہیں کہ مجھے تو ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں میرے بارے میں قرآن نہ نازل ہو یا مجھ پر کوئی عذاب الٰہی نہ آ جائے یا اس گناہ میں میں بھی اپنے باپ کا شریک نہ کر دیا جاؤں ، چنانچہ میں سیدھا حاضر ہوا اور تمام بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مع اپنے ڈر کے سنا دی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16982) ابن جریر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علی وسلم ایک سائے دار درخت تلے بیٹھے ہوئے فرمانے لگے کہ ” ابھی تمہارے پاس ایک شخص آئے گا اور تمہیں شیطان دیکھے گا خبردار ! تم اس سے کلام نہ کرنا “ ، اسی وقت ایک انسان کیری آنکھوں والا آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تو اور تیرے ساتھی مجھے گالیاں کیوں دیتے ہو “ ؟ وہ اسی وقت گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا سب نے قسمیں کھا کھا کر کہا ہم نے کوئی ایسا لفظ نہیں کہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درگذر فرما لیا پھر یہ آیت اتری ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16988) اس میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے وہ قصد کیا جو پورا نہ ہوا مراد اس سے جلاس کا یہ ارادہ ہے کہ اپنے سوتیلے لڑکے کو جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کہ دی تھی قتل کر دے ۔ ایک قول ہے کہ عبداللہ بن ابی نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا تھا ۔ یہ قول بھی ہے کہ بعض لوگوں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے سردار بنا دیں گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی نہ ہوں ۔ یہ بھی مروی ہے کہ دس سے اوپر اوپر آدمیوں نے غزوہ تبوک میں راستے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دے کر قتل کرنا چاہا تھا ، چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے آگے پیچھے تھے ایک چلتا تھا دوسرا نکیل تھامتا تھا ۔ ہم عقبہ میں تھے کہ بارہ شخص منہ پر نقاب ڈالے آئے اور اونٹنی کو گھیر لیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں للکارا اور وہ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا : ” کیا تم نے انہیں پہچانا “ ؟ ہم نے کہا : ” نہیں لیکن ان کی سواریاں ہماری نگاہوں میں ہیں “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” یہ منافق تھے اور قیامت تک ان کے دل میں نفاق رہے گا ۔ جانتے ہو کہ کس ارادے سے آئے تھے “ ؟ ہم نے کہا : ” نہیں “ ۔ فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے رسول کو عقبہ میں پریشان کرنے اور تکلیف پہنچانے کے لیے “ ۔ ہم نے کہا : ” نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! ان کی قوم کے لوگوں سے کہلوا دیجئیے کہ ہر قوم والے اپنی قوم کے جس آدمی کی شرکت اس میں پائیں اس کی گردن اڑا دیں “ ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں ورنہ لوگوں میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں گی کہ محمد ﷺ پہلے تو انہی لوگوں کو لے کر اپنے دشمنوں سے لڑے ان پر فتح حاصل کر کے اپنے ان ساتھیوں کو بھی قتل کر ڈالا “ ۔ آپ ﷺ نے ان کے لیے بد دعا کی کہ اے اللہ ! ان کے دلوں پر آتشیں پھوڑے پیدا کر دے ۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیہقی:260/5:ضعیف) اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک سے واپسی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کرا دیا کہ میں عقبہ کے راستے میں جاؤں گا ۔ اس کی راہ کوئی نہ آئے ۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ پیچھے سے چلا رہے تھے کہ ایک جماعت اپنی اونٹنیوں پر سوار آ گئی ۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی سواریوں کو مارنا شروع کیا اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کو نیچے کی طرف چلانی شروع کر دی ۔ جب نیچے میدان آ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری سے اتر آئے اتنے میں عمار رضی اللہ عنہ بھی واپس پہنچ گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ ” یہ لوگ کون تھے پہچانا بھی “ ؟ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا : ” منہ تو چھپے ہوئے تھے لیکن سواریاں معلوم ہیں “ ۔ پوچھا : ” انکا ارادہ کیا تھا جانتے ہو “ ؟ جواب دیا کہ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” انہوں نے چاہا تھا کہ شور کر کے ہماری اونٹنی کو بھڑکا دیں اور ہمیں گرا دیں “ ۔ ایک سے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ان کی تعداد دریافت کی تو اس نے کہا چودہ ۔ آپ نے فرمایا : ” اگر تو بھی ان میں تھا تو پندرہ “ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تین شخصوں کے نام گنوائے ۔ انہوں نے کہا واللہ ! ہم نے تو منادی کی ندا سنی اور نہ ہمیں اپنے ساتھیوں کے کسی بد ارادے کا علم تھا ۔ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” باقی کے بارہ لوگ اللہ و رسول ﷺ سے لڑائی کرنے والے ہیں دنیا میں اور آخرت میں بھی ۔ ۱؎ (مسند احمد:390،391/5:صحیح) امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے ان میں سے بہت سے لوگوں کے نام بھی گنوائے ہیں ، واللہ اعلم ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اہل عقبہ میں سے ایک شخص کے ساتھ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کا کچھ تعلق تھا تو اس سے آپ نے قسم دے کر اصحاب عقبہ کی گنتی دریافت کی ۔ لوگوں نے بھی اس سے کہا کہ ہاں بتلاؤ ۔ اس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ چودہ تھے اگر مجھے بھی شامل کیا جائے تو پندرہ ہوئے ۔ ان میں سے بارہ تو دشمن الہٰی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور تین شخصوں کی اس قسم پر کہ نہ ہم نے منادی کی نہ ندا سنی نہ ہمیں جانے والوں کے ارادے کا علم تھا اس لیے معذور رکھا گیا ۔ گرمی کاموسم تھا پانی بہت کم تھا آپ نے فرما دیا تھا کہ مجھ سے پہلے وہاں کوئی نہ پہنچے لیکن اس پر بھی کچھ لوگ پہنچ گئے تھے آپ نے ان پر لعنت کی ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2779۔11) آپ کا فرمان ہے کہ میرے ساتھیوں میں بارہ منافق ہیں جو نہ جنت میں جائیں گے نہ اس کی خوشبو پائیں گے آٹھ کے مونڈھوں پر تو آتشی پھوڑا ہو گا جو سینے تک پہنچے گا اور انہیں ہلاک کر دے گا ۔ ۱؎ (مسند احمد:319،262/4:صحیح) اسی باعث سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علی وسلم کا راز دار کہا جاتا تھا ۔ آپ ﷺ نے صرف انہی کو ان منافقوں کے نام بتلائے تھے ۔ واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ان کے نام یہ ہیں معتب بن قشیر ، ودیعہ بن ثابت ، جد بن عبداللہ بن نبتل بن حارث جو عمرو بن عوف کے قبیلے کا تھا اور حارث بن یزید طائی اور اوس بن قیظی اور حارث بن سوید اور سعد بن زرارہ اور قیس بن فہر اور سوید اور داعس قبیلہ بنو حبلیٰ کے اور قیس بن عمرو بن سہل اور زید بن لصیت اور سلالہ بن حمام یہ دونوں قبیلہ بنو قینقاع کے ہیں یہ سب بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے ۔ اس آیت میں اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اسی بات کا بدلہ لیا ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رسول ﷺ کے ہاتھوں مالدار بنایا ، اگر ان پر اللہ تعالیٰ کا پورا فضل ہو جاتا تو انہیں ہدایت نصیب ہو جاتی جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا : ” کیا میں نے تمہیں گمراہی کی حالت میں نہیں پایا تھا ؟ کہ پھر اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تمہاری رہبری کی ، تم متفرق تھے اللہ تعالیٰ نے میری وجہ سے تم میں الفت ڈال دی تم فقیر بے نوا تھے اللہ تعالیٰ نے میرے سبب سے تمہیں غنی اور مالدار کر دیا “ ۔ ہر ہر سوال کے جواب میں انصار رضی اللہ عنہم فرماتے جاتے تھے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سے زیادہ احسان ہے ۱؎ (صحیح بخاری:4330) ۔ الغرض بیان یہ ہے کہ بے وجہ ، بے قصور یہ لوگ دشمنی اور بےایمانی پر اتر آئے ، جیسے سورۃ البروج میں ہے کہ ان مسلمانوں میں سے ایک کافروں کا انتقام صرف ان کے ایمان کے باعث تھا ۔ حدیث میں ہے کہ ابن جمیل صرف اس بات کا انتقام لیتا ہے کہ وہ فقیر تھا اللہ تعالیٰ نے اسے غنی کر دیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:1768) پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی توبہ کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہے اور اگر وہ اپنے اسی طریقہ پر کاربند رہے تو انہیں دنیا میں بھی سخت سزا ہو گی قتل سے بھی صدمہ و غم سے بھی اور دوزخ کے ذلیل و پست کرنے والے ناقابلِ برداشت عذابوں سے بھی ، دنیا میں کوئی نہ ہو گا جو ان کی طرف داری کرے ان کی مدد کرے ان کے کام آئے ان سے برائی ہٹائے یا نفع پہنچائے یہ بے یارو مددگار رہ جائیں گے ۔