كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تم ان لوگوں کے مانن ہو جو تم سے پہلے (52) تھے، وہ لوگ تم سے زیادہ قوی اور زیادہ مال و اولاد والے تھے، انہوں نے اپنے حصہ کی دنیاوی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا، تو تم نے بھی اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا، جس طرح ان لوگوں نے اپنے حصہ سے فائدہ اٹھایا جو تم سے پہلے تھے، اور تم نے بھی (قرآن، اسلام اور نبی پر) نکتہ چینی کی، جیسا کہ انہوں نے کی تھی، ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں برباد ہوگئے، اور وہی لوگ خائب و خاسر ہیں
ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ان لوگوں کو بھی اگلے لوگوں کی طرح عذاب پہنچے ، «خَلَاقِ» سے مراد یہاں دین ہے ، جیسے اگلے لوگ جھوٹ اور باطل میں کودتے پھاندتے رہے ، ایسے ہی ان لوگوں نے بھی کیا ۔ ان کے یہ فاسد اعمال اکارت گئے نہ دنیا میں سود مند ہوئے نہ آخرت میں ثواب دلانے والے ہوئے یہی صریح نقصان ہے کہ عمل کیا اور ثواب نہ ملا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں جیسے آج کی رات کل کی رات سے مشابہ ہوتی ہے اسی طرح اس امت میں بھی یہودیوں کی مشابہت آ گئی ۔ میرا تو خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم اپنے سے پہلے کے لوگوں کے طریقوں کی تابعداری کرو گے بالکل بالشت بہ بالشت اور ذراع بہ ذراع اور ہاتھ بہ ہاتھ یہاں تک کہ وہ اگر کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو یقیناً تم بھی گھسو گے “ ۔ لوگوں نے پوچھا : ” اس سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کون لوگ ہیں ؟ کیا اہل کتاب “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور کون “ ؟ ۱؎ (صحیح بخاری:3456) اس حدیث کو بیان فرما کر ابوہریرہ نے فرمایا اگر چاہو تو قرآن کے ان لفظوں کو پڑھ لو «کَالَّذِینَ مِن قَبْلِکُمْ» (9-التوبہ:69) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” «خَلَاقِ» سے مراد دین ہے ۔ اور تم نے بھی اسی طرح کا خوض کیا جس طرح کا انہوں نے کیا “ ۔ لوگوں نے پوچھا : ” کیا فارسیوں اور رومیوں کی طرح “ ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اور لوگ ہیں ہی ہیں کون “ ؟ ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3994،قال الشیخ الألبانی:حسن صحیح) اس حدیث کے شواہد صحیح احادیث میں بھی ہیں ۔