فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ
پس آپ کو ان کا مال و دولت اور ان کی اولاد دھوکے (42) میں نہ رکھے، اللہ تو چاہتا ہے کہ انہٰں ان کے سبب دنیاوی زندگی میں عذاب دے، اور ان کی جانیں حالت کفر میں نکلیں
کثرت مال و دولت عذاب بھی ہے ان کے مال و اولاد کو للچائی ہوئی نگاہوں سے نہ دیکھ ، ان کی دنیا کی اس ہیرا پھیری کی کوئی حقیقت نہ گن یہ ان کے حق میں کوئی بھلی چیز نہیں یہ تو ان کے لیے دنیوی سزا بھی ہے کہ نہ اس میں سے زکوٰۃ نکلے نہ اللہ کے نام خیرات ہو ۔ قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں یہاں مطلب مقدم مؤخر ہے یعنی تجھے ان کے مال و اولاد اچھے نہ لگنے چاہئیں اللہ کا ارادہ اس سے انہیں اس حیات دنیا میں ہی سزا دینے کا ہے ۔ پہلا قول حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے وہی اچھا اور قوی ہے ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی کو پسند فرماتے ہیں ۔ اس میں یہ ایسے پھنسے رہیں گے کہ مرتے دم تک راہ ہدایت نصیب نہیں ہو گی ، یوں ہی بتدریج پکڑ لیے جائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہ چلے گا ۔ یہی حشمت و جاہت ، مال و دولت جہنم کی آگ بن جائے گا ۔