سورة التوبہ - آیت 46

وَلَوْ أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اگر ان کا ارادہ نکلنے (36) کا ہوتا تو اس کے لیے تیار کرتے، لیکن اللہ نے (جہاد کے لیے) ان کی روانگی کو پسند نہیں کیا اس لیے انہیں روک دیا، اور ان سے کہا گیا کہ تم بھی عذر والوں کے ساتھ بیٹھے رہ جاؤ

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

غلط گو غلط کار کفار و منافق یہ عذر کرتے ہیں ۔ ان کے غلط ہونے کی ایک ظاہری دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ان کا ارادہ ہوتا تو کم از کم سامان سفر تو تیار کر لیتے لیکن یہ تو اعلان اور حکم کے بعد بھی کئی دن گزرنے پر بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے ایک تنکا بھی ادھر سے ادھر نہ کیا ۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کا تمہارے ساتھ نکلنا پسند ہی نہ تھا اس لیے انہیں پیچھے ہٹا دیا ، اور قدرتی طور پر ان سے کہ دیا گیا کہ تم تو بیٹھنے والوں کا ہی ساتھ دو ۔ سنو ان کے ساتھ کو ناپسند رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ پورے نامراد اعلیٰ درجے کے بزدل بڑے ہی ڈرپوک ہیں ۔ اگر یہ تمہارے ساتھ ہوتے تو پتہ کھڑکا اور بندہ سرکا کی مثل کو اصل کر دکھاتے اور ان کے ساتھ ہی تم میں بھی فساد برپا ہو جاتا ۔ یہ ادھر کی ادھر ، ادھر کی ادھر لگا بجھا کر بات کا بتنگڑ بنا کر آپس میں پھوٹ اور عداوت ڈلوا دیتے اور کوئی نیا فتنہ کھڑا کر کے تمہیں آپس میں ہی الجھا دیتے ، ان کے ماننے والے ان کے ہم خیال ان کی پالیسی کو اچھی نظر سے دیکھنے والے خود تم میں بھی موجود ہیں وہ اپنے بھولے پن سے ان کی شر انگیزیوں سے بے خبر رہتے ہیں جس کا نتیجہ مومنوں کے حق میں نہایت برا نکلتا ہے آپس میں شر و فساد پھیل جاتا ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا مطلب یہ ہے کہ ان کے گویندے ان کی سی آئ ڈی اور جاسوس بھی تم میں لگے ہوئے تھے جو تمہاری رتی رتی کی خبریں انہیں پہنچاتے ہیں ۔ لیکن یہ معنی کرنے سے وہ لطافت باقی نہیں رہتی جو شروع آیت سے ہے یعنی ان لوگوں کا تمہارے ساتھ نہ نکلنا اللہ تعالیٰ کو اس لیے بھی ناپسند رہا کہ تم میں بعض وہ بھی ہیں جو ان کی مان لیا کرتے ہیں ۔ یہ تو بہت درست ہے لیکن ان کے نہ نکلنے کی وجہ کے لیے جاسوسی کی کوئی خصوصیت ان کی نہ نکلنے کی وجہ کے لئے نہیں ہو سکتی ۔ اسی لیے قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ مفسرین کا یہی قول ہے ۔ امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اجازت طلب کرنے والوں میں عبداللہ بن ابی بن سلول اور جد بن قیس بھی تھا اور یہی بڑے بڑے رؤسا اور ذی اثر منافق تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں دور ڈال دیا ، اگر یہ ساتھ ہوتے تو ان کی منہ دیکھی ماننے والے وقت پر ان کے ساتھ ہو کر مسلمانوں کے نقصان کا باعث بن جاتے محمدی لشکر میں ابتری پھیل جاتی کیونکہ یہ لوگ وجاہت والے تھے اور کچھ مسلمان ان کے حال سے ناواقف ہونے کی وجہ سے ان کے ظاہری اسلام اور چرب کلامی پر مفتون تھے اور اب تک ان کے دلوں میں ان کی محبت تھی ، یہ ان کی لاعلمی کی وجہ سے تھی ، سچ ہے پورا علم اللہ ہی کو ہے غائب حاضر جو ہو چکا ہو اور ہونے والا ہو سب اس پر روشن ہے اسی اپنے علم غیب کی بنا پر وہ فرماتا ہے کہ تم مسلمانو ! ان کا نہ نکلنا غنیمت سمجھو یہ ہوتے تو اور فساد و فتنہ برپا کرتے ، نہ کرتے نہ کرنے دیتے ، اسی باعث فرمان ہے کہ اگر کفار دوبارہ بھی دنیا میں لوٹائے جائیں تو نئے سرے سے پھر وہی کریں جس سے منع کئے جائیں اور یہ جھوٹے کے جھوٹے ہی رہیں ۔ ۱؎ (6-الأنعام:28) ایک اور آیت میں ہے کہ اگر علم اللہ تعالیٰ میں ان کے دلوں میں کوئی بھی خیر ہوتی تو اللہ تعالیٰ عزوجل انہیں ضرور سنا دیتا لیکن اب تو یہ حال ہے کہ سنیں بھی تو منہ موڑ کر لوٹ جائیں ۔ ۱؎ (8-الأنفال:23) اور جگہ ہے کہ اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم آپس میں ہی موت کا کھیل کھیلو یا جلا وطن ہو جاؤ تو بجز بہت کم لوگوں کے یہ ہرگز اسے نہ کرتے ، حالانکہ ان کے حق میں بہتر اور اچھا یہی تھا کہ جو نصیحت انہیں کی جائے یہ اسے بجا لائیں تاکہ اس صورت میں ہم انہیں اپنے پاس سے اجر عظیم دیں اور راہ مستقیم دکھائیں ۔ ۱؎ (4-النساء:68،66) اور بھی ایسی آیتیں بہت ساری ہیں ۔