إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
اگر تم لوگ رسول اللہ کی مدد نہیں کرو گے تو (کوئی فرق نہیں پڑتا) اللہ نے ان کی مدد اس وقت کی جب کافروں نے انہیں نکال دیا تھا اور وہ دو میں سے ایک تھے جب دونوں غار میں تھے، اور اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کیجئے، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، تو اللہ نے انہیں اپنی طرف سے تسکین دیا، اور ایسے لشکر کے ذریعہ انہیں قوت پہنچائی جسے تم لوگوں نے نہیں دیکھا، اور کافروں کی بات نیچی کر دکھائی، اور اللہ کی بات اوپر ہوئی، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
آغاز ہجرت تم اگر میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد و تائید چھوڑ دو تو میں کسی کا محتاج نہیں ہوں ، میں آپ اس کا ناصر موید کافی اور حافظ ہوں ۔ یاد کر لو ہجرت والے سال جبکہ کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل یا قید یا دیس سے نکال دینے کی سازش کی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سچے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ تن تنہا مکہ مکرمہ سے نکل بھاگے تھے تو کون اس کا مددگار تھا ۔ تین دن مارے خوف کے اس ڈر سے غار میں گزارے تاکہ ڈھونڈھنے والے مایوس ہو کر واپس چلے جائیں تو یہاں سے نکل کر مدینہ منورہ کا راستہ لیں ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ لمحہ بہ لمحہ گھبرا رہے تھے کہ کسی کو پتہ نہ چل جائے ایسا نہ ہو کہ وہ رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کو کوئی ایذاء پہنچائے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تسکین فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ” ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان دو کی نسبت تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ مسند احمد میں ہے کہ سیدنا ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غار میں کہا کہ ” اگر ان کافروں میں سے کسی نے اپنے قدموں کو بھی دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ان دو کو کیا سمجھتا ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3922) الغرض اس موقعہ پر جناب باری سبحانہ و تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی ۔ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی تفسیر یہی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو مطمئن اور سکون و تسکین والے تھے ہی ۔ لیکن اس خاص حال میں تسکین کا از سر نو بھیجنا کچھ اس کے خلاف نہیں ۔ اسی لئے اسی کے ساتھ فرمایا کہ اپنے غائبانہ لشکر اتار کر اس کی مدد فرمائی یعنی بذریعہ فرشتوں کے ۔ اللہ تعالیٰ نے کلمہ کفر دبا دیا اور اپنے کلمے کا بول بالا کیا شرک کو پست کیا اور توحید کو اونچا کیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی بہادری کے لیے ، دوسرا حمیت قومی کے لیے ، تیسرا لوگوں کو خوش کرنے کیلئے لڑ رہا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ کا مجاہد کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو کلمہء اللہ کو بلند و بالا کرنے کی نیت سے لڑے وہ اللہ کی راہ کا مجاہد ہے “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:2810) اللہ تعالیٰ انتقام لینے پر غالب ہے ۔ جس کی مدد کرنا چاہے کرتا ہے نہ اس کے سامنے کوئی پڑ سکے نہ اس کے ارادے کو کوئی بدل سکے کون ہے جو اس کے سامنے لب ہلا سکے یا آنکھ ملا سکے ؟ اس کے سب اقوال افعال ، حکمت و مصلحت بھلائی اور خوبی سے پر ہیں ۔ تعالیٰ شانہ وجد مجدہ ۔