وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ ۖ ذَٰلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ ۖ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن قَبْلُ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۚ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
اور یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے (24) ہیں اور نصاری نے کہا کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، یہ ان کے منہ کی بکواس ہے، ان لوگوں کے قول کی مشابہت اختیار کرتے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا تھا، اللہ انہیں ہلاک کردے، کس طرح حق سے پھرجا رہے ہیں
بزرگ بڑے نہیں اللہ جل شانہ سب سے بڑا ہے ان آیتوں میں بھی جناب باری عزوجل مومنوں کو مشرکوں ، کافروں سے یہودیوں ، نصرانیوں سے جہاد کرنے کی رغبت دلاتا ہے ۔ فرماتا ہے دیکھو وہ اللہ کی شان میں کیسی گستاخیاں کرتے ہیں ؟ یہود عزیر کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا بتلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اس سے پاک اور برتر و بلند ہے کہ اس کی اولاد ہو ۔ ان لوگوں کو سیدنا عزیر علیہ السلام کی نسبت جو یہ وہم ہوا اس کا قصہ یہ ہے کہ جب عمالقہ بنی اسرائیل پر غالب آ گئے ان کے علماء کو قتل کر دیا ان کے رئیسوں کو قید کر لیا ۔ عزیر علیہ السلام کا علم اٹھ جانے اور علماء کے قتل ہو جانے سے اور بنی اسرائیل کی تباہی سے سخت رنجیدہ ہوئے اب جو رونا شروع کیا تو آنکھوں سے آنسو ہی نہ تھمتے تھے روتے روتے پلکیں بھی جھڑ گئیں ۔ ایک دن اسی طرح روتے ہوئے ایک میدان سے گزر ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی ہے اور کہہ رہی ہے ہائے اب میرے کھانے کا کیا ہو گا ؟ میرے کپڑوں کا کیا ہو گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس ٹھہر گئے اور اس سے فرمایا : ” اس شخص سے پہلے تجھے کون کھلاتا تھا اور کون پہناتا تھا “ ؟ اس نے کہا : ” اللہ تعالیٰ “ ۔ آپ نے فرمایا : ” پھر اللہ تعالیٰ تو اب بھی زندہ ، باقی ہے اس پر تو کبھی نہیں موت آئے گی ہی نہیں “ ۔ یہ سن کر اس عورت نے کہا : ” اے عزیر ! پھر تم یہ تو بتلاؤ کہ بنی اسرائیل سے پہلے علماء کو کون علم سکھاتا تھا “ ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ “ ۔ اس نے کہا : ” آپ علیہ السلام یہ رونا دھونا لے کر کیوں بیٹھے ہیں “ ؟ آپ علیہ السلام کو سمجھ میں آ گیا کہ یہ جناب باری سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تنبیہہ ہے پھر آپ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ فلاں نہر پر جا کر غسل کرو وہیں دو رکعت نماز ادا کرو وہاں تمہیں ایک شخص ملیں گے وہ جو کچھ کھلائیں گے وہ کھا لو ۔ چنانچہ آپ علیہ السلام وہیں تشریف لے گئے نہا کر نماز ادا کی ، دیکھا کہ ایک شخص ہیں کہہ رہے ہیں منہ کھولو آپ علیہ السلام نے منہ کھول دیا انہوں نے تین مرتبہ کوئی چیز آپ علیہ السلام کے منہ میں بڑی ساری ڈالی اسی وقت اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا سینہ کھول دیا ، اور آپ علیہ السلام توراۃ کے سب سے بڑے عالم بن گئے بنی اسرائیل میں گئے ان سے فرمایا کہ ” میں تمہارے پاس تورات لایا ہوں “ ۔ انہوں نے کہا : ” آپ علیہ السلام ہم سب کے نزدیک سچے ہیں “ ۔ آپ علیہ السلام نے اپنی انگلی کے ساتھ قلم کو لپیٹ لیا اور اسی انگلی سے بیک وقت پوری تورات لکھ ڈالی ۔ ادھر لوگ لڑائی سے لوٹے ان میں ان کے علماء بھی واپس آئے تو انہیں سیدنا عزیر علیہ السلام کی اس بات کا علم ہوا یہ گئے اور پہاڑوں اور غاروں میں تورات شریف کے جو نسخے چھپا آئے تھے وہ نکال لائے اور ان نسخوں سے سیدنا عزیر علیہ السلام کے لکھے ہوئے نسخے کا مقابلہ کیا تو بالکل صحیح پایا ۔ اس پر بعض جاہلوں کے دل میں شیطان نے یہ وسوسہ ڈال دیا کہ آپ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کو نصرانی اللہ کا بیٹا کہتے تھے ان کا واقعہ تو ظاہر ہے ۔ پس ان دونوں گروہ کی غلط بیانی قرآن بیان فرما رہا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ ان کی صرف زبانی باتیں ہیں جو محض بےدلیل ہیں جس طرح ان سے پہلے کے لوگ کفر و ضلالت میں تھے یہ بھی انہی کے مرید و مقلد ہیں اللہ تعالیٰ انہیں لعنت کرے حق سے کیسے بھٹک گئے ۔ مسند احمد و ترمذی اور ابن جریر میں ہے کہ جب عدی بن حاتم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پہنچا تو شام کی طرف بھاگ نکلا ۔ جاہلیت میں ہی یہ نصرانی بن گیا تھا یہاں اس کی بہن اور اس کی جماعت قید ہو گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور احسان اس کی بہن کو آزاد کر دیا اور رقم بھی دی ۔ یہ سیدھی اپنے بھائی کے پاس گئیں اور انہیں اسلام کی رغبت دلائی اور سمجھایا کہ تم رسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس چلے جاؤ ۔ چنانچہ یہ مدینہ منورہ آ گئے تھے اپنی قوم طے کے سردار تھے ان کے باپ کی سخاوت دنیا بھر میں مشہور تھی ۔ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پاس آئے ۔ اس وقت عدی کی گردن میں چاندی کی صلیب لٹک رہی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اسی آیت «اتَّخَذُوا» کی تلاوت ہو رہی تھی ۔ تو انہوں نے کہا کہ ” یہود و نصاریٰ نے اپنے علماء اور درویشوں کی عبادت نہیں کی “ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” ہاں سنو ان کے کئے ہوئے حرام کو حرام سمجھنے لگے اور جسے ان کے علماء اور درویش حلال بتا دیں اسے حلال سمجھنے لگے یہی ان کی عبادت تھی “ ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” عدی کیا تم اس سے منکر ہو کہ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے ، کیا تمہارے خیال میں اللہ تعالیٰ سے بڑا اور کوئی ہے کیا تم اس سے انکار کرتے ہو کہ معبود برحق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ؟ کیا تمہارے نزدیک اس کے سوا اور کوئی بھی عبادت کے لائق ہے “ ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی ، انہوں نے مان لی اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی ادا کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا : ” یہود پر غضب اللہ اترا ہے اور نصرانی گمراہ ہو گئے ہیں “ ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3095،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ سے بھی اس آیت کی تفسیر اسی طرح مروی ہے کہ اس سے مراد حلال و حرام کے مسائل میں علماء اور ائمہ کی محض باتوں کی تقلید ہے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں انہوں نے بزرگوں کی ماننی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کی کتاب ایک طرف ہٹا دی ، اسی لیے اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں حکم تو صرف یہ تھا کہ اللہ تعاللیٰ کے سوا اور کی عبادت نہ کریں وہی جسے حرام کر دے حرام ہے اور وہ جسے حلال فرما دے حلال ہے اسی کے فرمان شریعت ہیں ، اسی کے احکام بجا لانے کے لائق ہیں اسی کی ذات عبادت کی مستحق ہے ۔ وہ مشرک سے اور شرک سے پاک ہے اس جیسا ، اس کا شریک ، اس کا نظیر ، اس کا مددگار ، اس کی ضد کا کوئی نہیں ، وہ اولاد سے پاک ہے نہ اس کے سوا کوئی معبود نہ پروردگار ۔