كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُونَ
مشرکین کے ساتھ کیسے کوئی عہد و پیمان ہوسکتا ہے، اور حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غالب (9) آجائیں تو تمہارے سلسلے میں کسی قرابت اور کسی عہد کا اعتبار نہ کریں، وہ تمہیں اپنی زبانوں سے خوش کرتے ہیں اور ان کے دل (تمہاری محبت کا) انکار کرتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں
کافروں کی دشمنی اللہ تعالیٰ کافروں کے مکر و فریب اور ان کی دلی عداوت سے مسلمانوں کو آگاہ کرتا ہے تاکہ وہ ان کی دوستی اپنے دل میں نہ رکھیں نہ ان کے قول و قرار پر مطمئن رہیں ان کا کفر شرک انہیں وعدوں کی پابندی پر رہنے نہیں دیتا ۔ یہ تو وقت کے منتظر ہیں ان کا بس چلے تو یہ تو تمہیں کچے چبا ڈالیں نہ قرابت داری کو دیکھیں نہ وعدوں کی پاسداری کریں اس سے جو ہو سکے وہ تکلیف تم پر توڑیں اور خوش ہوں ۔ «آل» کے معنی قرابت داری کے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی مروی ہے اور سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے شعر میں بھی یہی معنی کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے غلبہ کے وقت اللہ کا بھی لحاظ نہ کریں گے نہ کسی اور کا یہی لفظ «ال » سے «إیل» بن کر جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل میں آیا یعنی اس کا معنی اللہ تعالیٰ ہے لیکن پہلا قول ہی ظاہر اور مشہور ہے اور اکثر مفسرین کا بھی یہی قول ہے ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مراد عہد ہے “ ۔ قتادہ رحمہ اللہ کا قول ہے مراد قسم ہے ۔