مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِي الْأَرْضِ ۚ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللَّهُ يُرِيدُ الْآخِرَةَ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
نبی کے لیے مناسب نہ تھا کہ ان کے پاس قیدی ہوتے قبل اس کے کہ وہ زمین میں کافروں کا خوب قتل (56) کرلیتے تم لوگ دنیاوی فائدہ چاہتے تھے، اور اللہ تمہارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا تھا، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے
اسیران بدر اور مشورہ مسند امام احمد میں ہے کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لیا کہ { اللہ نے انہیں تمہارے قبضے میں دے دیا ہے بتاؤ کیا ارادہ ہے ؟} سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ ” ان کی گردنیں اڑا دی جائیں“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منہ پھیر لیا پھر فرمایا: { اللہ نے تمہارے بس میں کر دیا ہے یہ کل تک تمہارے بھائی بند ہی تھے ۔} پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنا جواب دوہرایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر منہ پھیر لیا اور پھر وہی فرمایا اب کی دفعہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رائے میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی خطا سے درگزر فرما لیجئے اور انہیں فدیہ لے کر آزاد کیجئے اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے غم کے آثار جاتے رہے عفو عام کر دیا اور فدیہ لے کر سب کو آزاد کر دیا اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت اتاری ۔۱؎ (مسند احمد:243/3:حسن لغیرہ) اسی سورۃ کے شروع میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت گزر چکی ہے صحیح مسلم میں بھی اسی جیسی حدیث ہے کہ بدر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ { ان قیدیوں کے بارے میں تم کیا کہتے ہو ؟ } سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم والے ہیں انہیں زندہ چھوڑا جائے ان سے توبہ کرالی جائے گی عجب کہ کل اللہ کی ان پر مہربانی ہو جائے۔ “ لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلانے والے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال دینے والے ہیں حکم دیجئیے کہ ان کی گردنیں ماری جائیں ۔“ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میدان میں درخت بکثرت ہیں آگ لگوا دیجئیے اور انہیں جلا دیجئیے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے کسی کو کوئی جواب نہیں دیا اور اٹھ کر تشریف لے گئے لوگوں میں بھی ان تینوں بزرگوں کی رائے کا ساتھ دینے والے ہو گئے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر تشریف لائے اور فرمانے لگے{ بعض دل نرم ہوتے ہوتے دودھ سے بھی زیادہ نرم ہو جاتے ہیں اور بعض دل سخت ہوتے ہوتے پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو جاتے ہیں ۔ اے ابوبکر تمہاری مثال نبی کریم ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے کہ«فَمَن تَبِعَنِی فَإِنَّہُ مِنِّی ۖ وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُورٌ رَّحِیمٌ » ۱؎ ( 14-ابراھیم : 36 ) ’ اللہ سے عرض کرتے ہیں کہ میرے تابعدار تو میرے ہیں ہی لیکن مخالف بھی تیری معافی اور بخشش کے ماتحت ہیں‘ اور تمہاری مثال عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے «إِن تُعَذِّبْہُمْ فَإِنَّہُمْ عِبَادُکَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَہُمْ فَإِنَّکَ أَنتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ » ۱؎ ( 5-المائدہ : 118 ) ’ جو کہیں گے یا اللہ اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر انہیں بخش دے تو تو عزیز و حکیم ہے‘ اور اے عمر تمہاری مثال موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بد دعا کی کہ«رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَیٰ أَمْوَالِہِمْ وَاشْدُدْ عَلَیٰ قُلُوبِہِمْ فَلَا یُؤْمِنُوا حَتَّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِیمَ» ۱؎ ( 10-یونس : 88 ) ’ اے پروردگار ان کے مال کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے کہ ایمان نہ لائیں جب تک عذاب الیم نہ دیکھ لیں‘ ، اور اے عمر تمہاری مثال نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم پر بد دعا کی کہ« لَا تَذَرْ عَلَی الْأَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا» ۱؎ ( 71-نوح : 26 ) ’ یا اللہ زمین پر کسی کافر کو بستا ہوا باقی نہ رکھ ۔‘ سنو تمہیں اس وقت احتیاج ہے ان قیدیوں میں سے کوئی بھی بغیر فدیئے کے رہا نہ ہو ورنہ ان کی گردنیں ماری جائیں۔} اس پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے درخواست کی کہ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن بیضا کو اس سے مخصوص کر لیا جائے اس لیے وہ اسلام کا ذکر کیا کرتا تھا۔ “ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے واللہ میں سارا دن خوف زدہ رہا کہ کہیں مجھ پر آسمان سے پتھر نہ برسائے جائیں یہاں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: { مگر سہیل بن بیضا اسی کا ذکر اس آیت میں ہے} یہ حدیث ترمذی مسند احمد وغیرہ میں ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:3084،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) ان قیدیوں میں عباس رضی اللہ عنہ بھی تھے انہیں ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا انصار کا خیال تھا کہ اسے قتل کر دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ حال معلوم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو مجھے اس خیال سے نیند نہیں آئی ۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو میں انصار کے پاس جاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ انصار کے پاس آئے اور کہا ” عباس رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو“ انہوں نے جواب دیا واللہ ہم اسے نہ چھوریں آپ نے فرمایا” گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی اسی میں ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ اب انہیں لے جائیں ہم نے بخوشی چھوڑا ۔ اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ” عباس اب مسلمان ہو جاؤ واللہ تمہارے اسلام لانے سے مجھے اپنے باپ کے اسلام لانے سے بھی زیادہ خوشی ہو گی اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے اسلام لانے سے خوش ہو جائیں گے۔“ ان قیدیوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو آپ نے تو فرمایا یہ سب ہمارے ہی کنبے قبیلے کے لوگ ہیں انہیں چھوڑ دیجئیے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے جب مشورہ لیا تو آپ نے جواب دیا کہ ان سب کو قتل کر دیا جائے ۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدیہ لے کر انہیں آزاد کیا۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:329/2:حسن) سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اختیار دیجئیے کہ وہ ان دو باتوں میں سے ایک کو پسند کر لیں اگر چاہیں تو فدیہ لے لیں اور اگر چاہیں تو ان قیدیوں کو قتل کر دیں لیکن یہ یاد رہے کہ فدیہ لینے کی صورت میں اگلے سال ان میں اتنے ہی شہید ہوں گے ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا ہمیں یہ منطور ہے اور ہم فدیہ لے کر چھوڑیں گے ( ترمذی نسائی وغیرہ ) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے ۔۱؎ (سنن ترمذی:1567،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان بدری قیدیوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ { اے صحابیو اگر چاہو تو انہیں قتل کر دو اور اگر چاہو ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں رہا کر دو لیکن اس صورت میں اتنے ہی آدمی تمہارے شہید کئے جائیں گے ۔} پس ان ستر شہیدوں میں سب سے آخر ثاب بین قیس رضی اللہ عنہما تھے جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے رضی اللہ عنہ ، یہ روایت سیدنا عبیدہ رضی اللہ عنہ سے مرسلاً بھی مروی ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ’ اگر پہلے ہی سے اللہ کی کتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت سے حلال نہ لکھا ہوا ہوتا اور جب تک ہم بیان نہ فرمادیں تب تک عذاب نہیں کیا کرتے ایسادستور ہمارا نہ ہوتا تو جو مال فدیہ تم نے لیا اس پر تمہیں بڑا بھاری عذاب ہوتا اسی طرح پہلے سے اللہ طے کر چکا ہے کہ کسی بدری صحابی رضی اللہ عنہم کو وہ عذاب نہیں کرے گا ۔ ان کے لیے مغفرت کی تحریر ہو چکی ہے ۔ ام الکتاب میں تمہارے لیے مال غنیمت کی حلت لکھی جا چکی ہے ۔ پس مال غنیمت تمہارے لیے حلال طیب ہے شوق سے کھاؤ پیو اور اپنے کام میں لاؤ ۔‘ پہلے لکھا جا چکا تھا کہ اس امت کے لیے یہ حلال ہے یہی قول امام ابن جریر کا پسندیدہ ہے اور اسی کی شہادت بخاری مسلم کی حدیث سے ملتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { مجھے پانچ چیزیں دی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں مہینے بھر کے فاصلے تک میری مدد رعب سے کی گئی ۔میرے لیے پوری زمین مسجد پاکی اور نماز کی جگہ بنا دی گئی مجھ پر غنیمتیں حلال کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی پر حلال نہ تھیں، مجھے شفاعت عطا فرمائی گئی ہر نبی خاصتہ اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا جاتا تھا لیکن میں عام لوگوں کی طرف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔} ۱؎ (صحیح بخاری:335) آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { کسی سیاہ سر والے انسان کے لیے میرے سوا غنیمت حلال نہیں کی گئی ۔}۱؎ (سنن ترمذی:3085،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان بدری قیدیوں سے فدیہ لیا اور ابوداؤد میں ہے ہر ایک سے چار سو کی رقم بطور تاوان جنگ کے وصول کی گئی ۔۱؎ (سنن ابوداود:2691،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پس جمہور علماء کرام کا مذہب یہ ہے کہ امام وقت کو اختیار ہے کہ اگر چاہے قیدی کفار کو قتل کر دے ، جیسے بنو قریضہ کے قدیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ۔ اگر چاہے بدلے کا مال لے کر انہیں چھوڑ دے جیسے کہ بدری قیدیوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا یا مسلمان قیدیوں کے بدلے چھوڑ دے جیسے کہ حضور اللہ علیہ والہ وسلم نے قبیلہ سلمہ بن اکوع کی ایک عورت اس کی لڑکی مشرکوں کے پاس جو مسلمان قیدی تھے ان کے بدلے میں دیا اور اگر چاہے انہیں غلام بنا کر رکھے ۔ یہی مذہب امام شافعی کا اور علماء کرام کی ایک جماعت کا ہے ۔ گو اوروں نے اس کا خلاف بھی کیا ہے یہاں اس کی تفصیل کی جگہ نہیں ۔