وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اور تم لوگ ان کے مانند نہ ہوجاؤ جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے نکلے، اور ان کا حال یہ تھا کہ وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے منع کرتے تھے، اور اللہ ان کے کارناموں سے پوری طرح واقف ہے
میدان بدر میں ابلیس مشرکین کا ہمراہی تھا جہاد میں ثابت قدمی نیک نیتی ذکر اللہ کی کثرت کی نصیحت فرما کر مشرکین کی مشابہت سے روک رہا ہے کہ ’ جیسے وہ حق کو مٹانے اور لوگوں میں اپنی بہادری دھانے کے لیے فخر و غرور کے ساتھ اپنے شہروں سے چلے تم ایسا نہ کرنا ۔ ‘ چنانچہ ابوجہل سے جب کہا گیا کہ قافلہ تو بچ گیا اب لوٹ کر واپس چلنا چاہیئے تو اس ملعون نے جواب دیا کہ واہ کس کا لوٹنا بدر کے پانی پر جا کر پڑاؤ کریں گے ۔ وہاں شرابیں اڑائیں گے کباب کھائیں گے گانا سنیں گے تاکہ لوگوں میں شہرت ہو جائے ۔ اللہ کی شان کے قربان جائیے ان کے ارمان قدرت نے پلٹ دیئے یہیں ان کی لاشیں گریں اور یہیں کے گڑھوں میں ذلت کے ساتھ ٹھونس دیئے گئے ۔ اللہ ان کے اعمال کا احاطہٰ کرنے والا ہے ان کے ارادے اس پر کھلے ہیں اسی لیے انہیں برے وقت سے پالا پڑا ۔ پس یہ مشرکین کا ذکر ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سرتاج سے بدر میں لڑنے چلے تھے ان کے ساتھ گانے والیاں بھی تھیں باجے گاجے بھی تھے ۔ شیطان لعین ان کا پشت پناہ بنا ہوا تھا انہیں پھسلا رہا تھا ۔ ان کے کام کو خوبصورت بھلا دکھا رہا تھا ان کے کانوں میں پھونک رہا تھا کہ بھلا تمہیں کون ہرا سکتا ہے ؟ ان کے دل سے بنوبکر کا مکہ پر چڑھائی کرنے کا خوف نکال رہا تھا اور سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں ان کے سامنے کھڑا ہو کر کہہ رہا تھا کہ میں تو اس علاقے کا سردار ہوں بنو مدلج سب میرے تابع ہیں میں تمہارا حمایتی ہوں بیفکر رہو ۔ «یَعِدُہُمْ وَیُمَنِّیہِمْ ۖ وَمَا یَعِدُہُمُ الشَّیْطَانُ إِلَّا غُرُورًا » ۱؎ (4-النساء : 120 ) ’ شیطان کا کام بھی یہی ہے کہ جھوٹے وعدے ، نہ پورا ہونے والی امیدوں کے سبز باغ دکھائے اور دھوکے کے جال میں پھنسائے ۔‘ بدر والے دن یہ اپنے جھنڈے اور لشکر کو ساتھ لے کر مشرکوں کی حمایت میں نکلا ان کے دلوں میں ڈالتا رہا کہ بس تم بازی لے گئے میں تمہارا مددگار ہوں ۔ لیکن جب مسلمانوں سے مقابلہ شروع ہوا اور اس خبیث کی نظریں فرشتوں پر پڑیں تو پچھلے پیروں بھاگا اور کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جس سے تمہاری آنکھیں اندھی ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کہتے ہیں بدر والے دن ابلیس اپنا جھنڈا بلند کئے مدلجی شخص کی صورت میں اپنے لشکر سمیت پہنچا اور شیطان سراقہ بن مالک بن جعشم کی صورت میں نمودار ہوا اور مشرکین کے دل بڑھائے ہمت دلائی جب میدان جنگ میں صف بندی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹی کی مٹھی بھر کر مشرکوں کے منہ پر ماری اس سے ان کے قدم اکھڑ گئے اور ان میں بھگدڑ مچ گئی ۔ جبرائیل علیہ السلام شیطان کی طرف چلے اس وقت یہ ایک مشرک کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے ہوئے تھا آپ کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑا کر اپنے لشکروں سمیت بھاگ کھڑا ہوا اس شخص نے کہا سراقہ تم تو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے حمایتی ہو پھر یہ کیا کر رہے ہو ؟ یہ ملعون چونکہ فرشتوں کو دیکھ رہا تھا کہنے لگا میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے میں تو اللہ سے ڈرنے والا آدمی ہوں اللہ کے عذاب بڑے بھاری ہیں۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16198:منقطع) اور روایت میں ہے کہ اسے پیٹھ پھیرتا دیکھ کر حارث بن ہشام نے پکڑ لیا ۔ اس نے اس کے منہ پر تھپڑ مارا جس سے یہ بیہوش ہو کر گر پڑا دوسرے لوگوں نے کہا سراقہ تو اس حال میں ہمیں ذلیل کرتا ہے ؟ اور ایسے وقت ہمیں دھوکہ دیتا ہے وہ کہنے لگا ہاں ہاں میں تم سے بری الذمہ اور بے تعلق ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جنہیں تم نہیں دیکھ رہے ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھوڑی سی دیر کے لیے ایک طرح کی بیخودی سی طاری ہو گئی پھر ہوشیار ہو کر فرمانے لگے { صحابیو خوش ہو جاؤ یہ ہیں تمہاری دائیں جانب جبرائیل علیہ السلام اور یہ ہیں تمہاری بائیں طرف میکائیل علیہ السلام اور یہ ہیں اسرافیل علیہ السلام تینوں مع اپنی اپنی فوجوں کے آ موجود ہوئے ہیں ۔ } ابلیس سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی صورت میں مشرکوں میں تھا ان کے دل بڑھا رہا تھا اور ان میں پشین گوئیاں کر رہا تھا کہ بے فکر رہو آج تمہیں کوئی ہرا نہیں سکتا ۔ لیکن فرشتوں کے لشکر کو دیکھتے ہی اس نے تو منہ موڑا اور یہ کہتا ہوا بھاگا کہ میں تم سے بری ہوں میں انہیں دیکھ رہا ہوں جو تمہاری نگاہ میں نہیں آتے ۔ حارث بن ہشام چونکہ اسے سراقہ ہی سمجھے ہوئے تھا اس لیے اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا اس نے اس کے سینے میں اس زور سے گھونسہ مارا کہ یہ منہ کے بل گر پڑا اور شیطان بھاگ گیا سمندر میں کود پڑا اور اپنا کپڑا اونچا کر کے کہنے لگایا اللہ میں تجھے تیرا وہ وعدہ یاد دلاتا ہوں جو تو نے مجھ سے کیا ہے ۔ طبرانی میں رفاعہ بن رافع سے بھی اسی کے قریب قریب مروی ہے ۔۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:0000،) سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب قریشیوں نے مکے سے نکلنے کا ارادہ کیا تو انہیں بنی بکر کی جنگ یاد آ گئی اور خیال کیا کہ ایسا نہ ہو ہماری عدم موجودگی میں یہاں چڑھائی کر دیں قریب تھا کہ وہ اپنے ارادے سے دست بردار ہو جائیں اسی وقت ابلیس لعین سراقہ کی صورت میں ان کے پاس آیا جو بنو کنانہ کے سرداروں میں سے تھا کہنے لگا اپنی قوم کا میں ذمہ دار ہوں تم ان کا بے خطر ساتھ دو اور مسلمانوں کے مقابلے کے لیے مکمل تیار ہو کر جاؤ ۔ خود بھی ان کے ساتھ چلا ہر منزل میں یہ اسے دیکھتے تھے سب کو یقین تھا کہ سراقہ خود ہمارے ساتھ ہے یہاں تک کہ لڑائی شروع ہو گئی اس وقت یہ مردود دم دبا کر بھاگا ۔ حارث بن ہشام یا عمیر بن وہب نے اسے جاتے دیکھ لیا اس نے شور مچا دیا کہ سراقہ کہاں بھاگا جا رہا ہے ؟ شیطان انہیں موت اور دوزخ کے منہ میں دھکیل کر خود فرار ہو گیا ۔ کیونکہ اس نے اللہ کے لشکروں کو مسلمانوں کی امداد کے لیے آتے ہوئے دیکھ لیا تھا صاف کہدیا کہ میں تم سے بری ہوں میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اس بات میں وہ سچا بھی تھا ۔ پھر کہتا ہے میں اللہ کے خوف سے ڈرتا ہوں ۔ اللہ کے عذاب سخت اور بھاری ہیں ۔ اس نے جبرائیل علیہ السلام کو فرشتوں کے ساتھ اترتے دیکھ لیا تھا سمجھ گیا تھا کہ ان کے مقابلے کی مجھ میں یا مشرکوں میں طاقت نہیں وہ اپنے اس قول میں تو جھوٹا تھا کہ میں خوف الٰہی کرتا ہوں یہ تو صرف اس کی زبانی بات تھی دراصل وہ اپنے میں طاقت ہی نہیں پاتا تھا ۔ یہی اس دشمن رب کی عادت ہے کہ بھڑکاتا اور بہکاتا ہے حق کے مقابلے میں لاکھڑا کر دیتا ہے پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔ قران فرماتا ہے«کَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِّنکَ إِنِّی أَخَافُ اللہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ» ۱؎ ( 59-الحشر : 16 ) ’ شیطان انسان کو کفر کا حکم دیتا ہے پھر جب وہ کفر کر چکتا ہے تو یہ کہنے لگتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں اللہ رب العالمین سے ڈرتا ہوں۔ ‘ اور آیت میں ہے کہ«وَقَالَ الشَّیْطَانُ لَمَّا قُضِیَ الْأَمْرُ إِنَّ اللہَ وَعَدَکُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتٰکُمْ فَأَخْلَفْتُکُمْ ۖ وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیْکُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِی ۖ فَلَا تَلُومُونِی وَلُومُوا أَنفُسَکُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِکُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِیَّ ۖ إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِینَ لَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ » ۱؎ ( 14-إبراہیم : 22 ) ’ جب حق واضح جاتا ہے تو یہ کہتا ہے اللہ کے وعدے سچے ہیں میں خود جھوٹا میرے وعدے بھی سراسر جھوٹے میرا تم پر کوئی زور دعویٰ تو تھا ہی نہیں تم نے تو آپ میری آرزو پر گردن جھکا دی اب مھے سرزنش نہ کرو خود اپنے تئیں ملامت کرو نہ میں تمہیں بچا سکوں گا نہ تم میرے کام آسکو گے ۔ اس سے پہلے جو تم مجھے شریک رب بنا رہے تھے میں تو آج اس کا بھی انکاری ہوں ۔ یقین مانو کہ ظالموں کے لیے دوزخ کا عذاب ہے۔‘ سیدنا ابواسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میری آنکھیں آج بھی ہوتیں تو میں تمہیں بدر کے میدان میں وہ گھاٹی دکھا دیتا جہاں سے فرشتے آتے تھے بیشک و شبہ مجھے وہ معلوم ہے۔ ۱؎ (دلائل النبوۃ للبیھقی:52/3:ضعیف) انہیں ابلیس نے دیکھ لیا اور اللہ نے انہیں حکم دیا کہ مومنوں کو ثابت قدم رکھو یہ لوگوں کے پاس ان کے جان پہچان کے آدمیوں کی شکل میں آتے اور کہتے خوش ہو جاؤ یہ کافر بھی کوئی چیز ہیں اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہے بے خوفی کے ساتھ شیر کا سا حملہ کر دو ۔ ابلیس یہ دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا اب تک وہ سراقہ کی شکل میں کفار میں موجود تھا ۔ ابوجہل نے یہ حال دیکھ کر اپنے لشکروں میں گشت شروع کیا کہہ رہا تھا کہ گھبراؤ نہیں اس کے بھاگ کھڑے ہونے سے دل تنگ نہ ہو جاؤ ، وہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیکھا پڑھا آیا تھا کہ تمیں عین موقعہ پر بزدل کر دے کوئی گھبرانے کی بات نہیں لات و عزیٰ کی قسم ! آج ان مسلمانوں کو ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت گرفتار کر لیں گے نامردی نہ کرو دل بڑھاؤ اور سخت حملہ کرو ۔ دیکھو خبردار انہیں قتل نہ کرنا زندہ پکڑنا تاکہ انہیں دل کھول کر سزا دیں ۔ یہ بھی اپنے زمانے کا فرعون ہی تھا اس نے بھی جادوگروں کے ایمان لانے کو کہا تھا کہ«إِنَّ ہٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوہُ فِی الْمَدِینَۃِ لِتُخْرِجُوا مِنْہَا أَہْلَہَا» ۱؎ ( 7-الاعراف : 123 ) ’ یہ تو صرف تمہارا ایک مکر ہے کہ یہاں سے تم ہمیں نکال دو ۔‘ اس نے بھی کہا تھا کہ«إِنَّہُ لَکَبِیرُکُمُ الَّذِی عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ» ۱؎ ( 20-طہٰ : 71 ) ’ جادوگرو یہ موسیٰ تمہارا استاد ہے حالانکہ یہ محض اس کا فریب تھا ۔‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { عرفے کے دن جس قدر ابلیس حقیر و ذلیل رسوا اور درماندہ ہوتا ہے اتنا کسی اور دن نہیں دیکھا گیا ۔ کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عام معافی اور عام رحمت اتری ہے ہر ایک کے گناہ عموماً معاف ہو جاتے ہیں ہاں بدر کے دن اس کی ذلت و رسوائی کا کچھ مت پوچھو جب اس نے دیکھا کہ فرشتوں کی فوجیں جبرائیل کی ماتحتی میں آ رہی ہیں ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:16204:ضعیف) جب دونوں فوجیں صف بندی کر کے آمنے سامنے آ گئیں تو اللہ کی قدرت و حکمت سے مسلمان کافروں کو بہت کم نظر آنے لگے اور کافر مسلمانوں کی نگاہ میں کم جچنے لگے ۔ اس پر کافروں نے قہقہہ لگایا کہ دیکھو مسلمان کیسے مذہبی دیوانے ہیں ؟ مٹھی بھر آدمی ہم ایک ہزار کے لشکر سے ٹکرا رہے ہیں ابھی کوئی دم میں ان کا چورا ہو جائے گا پہلے ہی حملے میں وہ چوٹ کھائیں گے کہ سر ہلاتے رہ جائیں ۔ رب العالمین فرماتا ہے ’ انہیں نہیں معلوم کہ یہ متوکلین کا گروہ ہے ان کا بھروسہ اس پر ہے جو غلبہ کا مالک ہے ، حکمت کا مالک ہے اللہ کے دین کی سختی مسلمانوں میں محسوس کر کے ان کی زبان سے یہ کلمہ نکلا کہ انہیں ذہبی دیوانگی ہے ۔‘ دشمن الٰہی ابوجہل ملعون ٹیلے کے اوپر سے جھانک کر اللہ والوں کی کمی اور بےسروسامانی دیکھ کر گدھے کی طرح پھول گیا اور کہنے لگا لو پالا مار لیا ہے ، بس آج سے اللہ کی عبادت کرنے والوں سے زمین خالی نظر آئے گی ، ابھی ہم ان میں سے ایک ایک کے دو دو کر کے رکھ دیں گے ۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے دین میں طعنہ دینے والے مکہ کے منافق تھے ۔ عامر کہتے ہیں یہ چند لوگ تھے جو زبانی مسلمان ہوئے تھے لیکن آج بدر کے میدان میں مشرکوں کے ساتھ تھے ۔ انہیں مسلمانوں کی کمی اور کمزوری دیکھ کر تعجب معلوم ہوا اور کہا کہ یہ لوگ تو مذہبی فریب خوردہ ہیں ۔ مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ قریش کی ایک جماعت تھی قیس بن ولید بن مغیرہ ، ابوقیس بن فاکہ بن مغیرہ ، حارث بن زمعہ بن اسود بن عبدالمطلب اور علی بن امیہ بن خلف اور عاص بن منبہ بن حجاج یہ قریش کے ساتھ تھے لیکن یہ متردد تھے اور اسی میں رکے ہوئے تھے یہاں مسلمانوں کی حالت دیکھ کر کہنے لگے یہ لوگ تو صرف مذہبی مجنوں ہیں ورنہ مٹھی بھر بے رسد اور بے ہتھیار آدمی اتنی ٹڈی دل شوکت و شان والی فوجوں کے سامنے کیوں کھڑے ہو جاتے ؟ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ بدر کی لڑائی میں نہیں آئے تھے ان کا نام منافق رکھ دیا گیا ۔ کہتے ہیں کہ یہ قوم اسلام کا اقرار کرتی تھی لیکن مشرکوں کی رو میں بہہ کر یہاں چلی آئی یہاں آ کر مسلمانوں کا قلیل سا لشکر دیکھ کر انہوں نے یہ کہا۔ جناب باری جل شانہ ارشاد فرماتا ہے کہ ’ جو اس مالک الملک پر بھروسہ کرے اسے وہ ذی عزت کر دیتا ہے کیونکہ عزت اس کی لونڈی ہے ، غلبہ اس کا غلام ہے وہ بلند جناب ہے وہ بڑا ذی شان ہے وہ سچا سلطان ہے ۔ وہ حکیم ہے اس کے سب کام الحکمت سے ہوتے ہیں وہ ہرچیز کو اس کی ٹھیک جگہ رکھتا ہے ۔ مستحقین امداد کی وہ مدد فرماتا ہے اور مستحقین ذلت کو وہ ذلیل کرتا ہے وہ سب کو خوب جانتا ہے ۔‘