وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۖ قَالُوا بَلَىٰ ۛ شَهِدْنَا ۛ أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ
اور جب آپ کے رب نے بنی آدم کی اولاد کو ان کی پیٹھوں (106) سے نکالا اور انہیں انہی کے بارے میں گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے کہا، ہاں، ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، یہ اس لیے کیا گیا کہ کہیں تم لوگ قیامت کے دن کہنے لگو کہ ہمیں تو ان باتوں کی قطعی کوئی خبر ہی نہیں تھی
ہر روح نے اللہ تعالٰی کو اپنا خالق مانا اولاد آدم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ان کی پیٹھوں سے روز اول میں نکالیں ۔ پھر ان سب سے اس بات کا اقرار لیا کہ رب ، خالق ، مالک ، معبود صرف وہی ہے ۔ اسی فطرت پر پھر دنیا میں ان سب کو ان کے وقت پر اس نے پیدا کیا ۔ یہی وہ فطرت ہے جس کی تبدیلی نا ممکن ہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ { ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:1385) ایک روایت میں ہے کہ { اس دین پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی ، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں ۔ جیسے کہ بکری کا بچہ صحیح سالم پیدا ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان کاٹ دیتے ہیں ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:4775) حدیث قدسی میں ہے کہ { میں نے اپنے بندوں کو موحد و مخلص پیدا کیا ۔ پھر شیطان نے آ کر انہیں ان کے سچے دین سے بہکا کر میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2865) قبیلہ بنو سعد کے ایک صحابی { سیدنا اسود بن سریع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چار غزوے کئے ۔ لوگوں نے لڑنے والے کفار کے قتل کے بعد ان کے بچوں کو بھی پکڑ لیا ، جب آپ کو اس کا علم ہوا تو بہت ناراض ہوئے اور فرمایا : لوگ ان بچوں کو کیوں پکڑ رہے ہیں ؟ کسی نے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ بھی تو مشرکوں کے ہی بچے ہیں ؟ فرمایا : سنو ! تم میں سے بہتر لوگ مشرکین کی اولاد میں ہیں ۔ یاد رکھو ! ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے ۔ پھر زبان چلنے پر اس کے ماں باپ یہودیت یا نصرانیت کی تعلیم دینے لگتے ہیں ۔ } اس کے راوی حسن فرماتے ہیں : اسی کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اللہ نے اولاد آدم سے اپنی توحید کا اقرار لیا ہے ۔ [ ابن جریر ] ۱؎ (مسند احمد:435/3:ضعیف) اس اقرار کے بارے میں کئی ایک حدیثیں مروی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ { قیامت کے دن دوزخی سے کہا جائے گا : اگر تمام دنیا تیری ہو تو کیا تو خوش ہے کہ اسے اپنے فدئیے میں دے کر میرے عذابوں سے آج بچ جائے ؟ وہ کہے گا : ہاں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تو اس سے بہت ہلکے درجے کی چیز تجھ سے طلب کی تھی اور اس کا وعدہ بھی تجھ سے لے لیا تھا کہ میرے سوا تو کسی اور کی عبادت نہ کرے ۔ لیکن تو اسے توڑے بغیر نہ رہا اور دوسرے کو میرا شریک عبادت ٹھہرایا ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:3334) مسند میں ہے : نعمان نامی میدان میں اللہ تعالیٰ نے پشت آدم میں سے عرفے کے دن ان کی تمام اولاد ظاہر فرمائی ۔ سب کو اس کے سامنے پھیلا دیا اور فرمایا : کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ! ہم گواہ ہیں ۔ پھر آپ نے «مُبْطِلُوْنَ» تک آیت تلاوت فرمائی ۔ } ۱؎ (مسند احمد:272/1:صحیح) یہ روایت موقوف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اس وقت لوگ چیونٹیوں کی طرح تھے اور تر زمین پر تھے ۔ ضحاک بن مزاحم کے چھ دن کی عمر کے صاحبزادے کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا : جابر اسے دفن کر کے اس کا منہ کفن سے کھول دینا اور گرہ بھی کھول دینا کیونکہ میرا یہ بچہ بٹھا دیا جائے گا اور اس سے سوال کیا جائے گا ۔ جابر نے حکم کی بجا آوری کی ۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے بچے سے کیا سوال ہو گا ؟ اور کون سوال کرے گا ؟ فرمایا : اس میثاق کے بارے میں جو صلب آدم میں لیا گیا ہے ، سوال کیا جائے گا ۔ میں نے پوچھا : وہ میثاق کیا ہے ؟ فرمایا : میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو جتنے انسان قیامت تک پیدا ہونے والے ہیں ، سب کی روحیں آ گئیں ۔ اللہ نے ان سے عہد و پیمان لیا کہ وہ اسی کی عبادت کریں گے ، اس کے سوا کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے ۔ خود ان کے رزق کا کفیل بنا ، پھر انہیں صلب آدم میں لوٹا دیا ۔ پس یہ سب قیامت سے پہلے ہی پہلے پیدا ہوں گے ۔ جس نے اس وعدے کو پورا کیا اور اپنی زندگی میں اس پر قائم رہا ، اسے وہ وعدہ نفع دے گا اور جس نے اپنی زندگی میں اس کی خلاف ورزی کی ، اسے پہلے کا وعدہ کچھ فائدہ نہ دے گا ۔ اور جو بچپن میں ہی مر گیا ، وہ میثاق اول پر اور فطرت پر مرا ۔ ان آثار سے بھی بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اوپر والی حدیث کا موقوف ہونا ہی اکثر اور زیادہ ثبوت والا ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { بنی آدم کی پیٹھ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی نسلیں ایسے نکالیں جیسے کنگھی بالوں میں سے نکلتی ہے ۔ ان سے اپنی ربوبیت کا سوال کیا ، انہوں نے اقرار کیا ، فرشتوں نے شہادت دی ۔ اس لیے کہ یہ لوگ قیامت کے دن اس سے غفلت کا بہانہ نہ کریں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15365) { سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا : یہی سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا تھا تو آپ نے میرے سنتے ہوئے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ۔ اپنے داہنے ہاتھ سے ان کی پیٹھ کو چھوا ، اس سے اولاد نکلی ۔ فرمایا : میں نے انہیں جہنم کے لئے پیدا کیا ہے ، یہ جہنمیوں کے اعمال کریں گے تو آپ سے سوال ہوا کہ پھر عمل کس گنتی میں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : جو جنتی ہے ، اس سے مرتے دم تک جنتیوں کے ہی اعمال سرزد ہوں گے اور جنت میں جائے گا ۔ ہاں ! جو جہنم کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، اس سے وہی اعمال سرزد ہوں گے ، انہی پر مرے گا اور جہنم میں داخل ہو گا ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:4703،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ابوداؤد ] اور حدیث میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو نکال کر ان کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک نور رکھ کر آدم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا ۔ انہوں نے پوچھا کہ یااللہ ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : یہ تیری اولاد ہے ۔ ان میں سے ایک کے ماتھے کی چمک آدم علیہ السلام کو بہت اچھی لگی ۔ پوچھا : یااللہ ! یہ کون ہے ؟ جواب ملا کہ یہ تیری اولاد میں سے بہت دور جا کر ہیں ، ان کا نام داؤد ہے ۔ پوچھا : ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا : ساٹھ سال ۔ کہا : یااللہ ! چالیس سال میری عمر میں سے ان کی عمر میں زیادہ کر ۔ پس جب آدم علیہ السلام کی روح کو قبض کرنے کے لئے فرشتہ آیا تو آپ نے فرمایا : میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں ۔ فرشتے نے کہا : آپ کو یاد نہیں کہ آپ نے یہ چالیس سال اپنے بچے داؤد کو ہبہ کر دیئے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ چونکہ آدم علیہ السلام نے انکار کیا تو ان کی اولاد بھی انکار کی عادی ہے ۔ آدم علیہ السلام خود بھول گئے ، ان کی اولاد بھی بھولتی ہے ۔ آدم علیہ السلام نے خطا کی ، ان کی اولاد بھی خطا کرتی ہے ۔ } ۱؎ (سنن ترمذی:3076،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث ترمذی میں ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن صحیح لکھتے ہیں ۔ اور روایت میں ہے کہ { جب آدم علیہ السلام نے دیکھا کہ کوئی ان میں جذامی ہے ، کوئی کوڑھی ہے ، کوئی اندھا ہے ، کوئی بیمار ہے تو پوچھا کہ یااللہ ! اس میں کیا مصلحت ہے ؟ فرمایا : یہ کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے ۔ آدم علیہ السلام نے پوچھا کہ یااللہ ! ان میں سے یہ زیادہ روشن اور نورانی چہروں والے کون ہیں ؟ فرمایا : یہ انبیاء ہیں الخ ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:8535/5:ضعیف) { کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں ، یہ ہمارا ذاتی عمل ہے یا کہ فیصل شدہ ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی اولاد کو ان کی پیٹھوں سے نکالا ہے ۔ انہیں گواہ بنایا پھر اپنی دونوں مٹھیوں میں لے لیا اور فرمایا : یہ جنتی ہیں اور یہ جہنمی ۔ پس اہل جنت پر تو نیک کام آسان ہوتے ہیں اور دوزخیوں پر برے کام آسان ہوتے ہیں ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:15377:حسن بالشواھد) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : { جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور قصہ ختم کیا تو جن کے دائیں ہاتھ میں نامہ اعمال ملنے والا ہے ، انہیں اپنی داہنی مٹھی میں لیا اور بائیں والوں کو بائیں مٹھی میں لیا ۔ پھر فرمایا : اے دائیں طرف والو ! انہوں نے کہا : «لبیک و سعدیک» ۔ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ۔ پھر فرمایا : اے بائیں طرف والو ! انہوں نے کہا : «لبیک و سعدیک» ۔ فرمایا : کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے کہا : ہاں ۔ پھر سب کو ملا دیا ۔ کسی نے پوچھا : یہ کیوں کیا ؟ فرمایا : اس لیے کہ ان کے لیے اور اعمال ہیں ، جنہیں یہ کرنے والے ہیں ۔ یہ تو صرف اس لیے کہلوایا گیا ہے کہ انہیں یہ عذر نہ رہے کہ ہم اس سے غافل تھے ۔ پھر سب کو صلب آدم علیہ السلام میں لوٹا دیا ۔ } ۱؎ (طبرانی کبیر:7943:ضعیف جداً) ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ اس دن سب کو جمع کیا ، صورتیں دیں ، بولنے کی طاقت دی ، پھر عہد و میثاق لیا اور اپنے رب ہونے پر خود انہیں گواہ بنایا اور ساتوں آسمانوں ، ساتوں زمینوں اور آدم علیہ السلام کو گواہ کیا کہ قیامت کے دن کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں علم نہ تھا ۔ جان لو کہ میرے سوا کوئی اور معبود نہیں ، نہ میرے سوا کوئی اور مربی ہے ۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ۔ میں اپنے رسولوں کو بھیجوں گا جو تمہیں یہ وعدہ یاد دلائیں گے ۔ میں اپنی کتابیں اتاروں گا تاکہ تمہیں یہ عہد و میثاق یاد دلاتی رہیں ۔ سب نے جواب میں کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا رب ہے ، تو ہی ہمارا معبود ہے ، تیرے سوا ہمارا کوئی مربی نہیں ۔ پس سب سے اطاعت کا وعدہ لیا ۔ اب جو آدم علیہ السلام نے نظر اٹھا کر دیکھا تو امیر ، غریب ، خوبصورت اور اس کے سوا مختلف لوگوں پر نظر پڑی تو آپ کہنے لگے : کیا اچھا ہوتا کہ سب برابر ایک ہی حالت میں ہوتے تو جواب ملا کہ یہ اس لیے ہے کہ ہر شخص میری شکر گزاری کرے ۔ آپ نے دیکھا کہ ان میں اللہ کے پیغمبر بھی ہیں ، ان سے پھر علیحدہ ایک اور میثاق لیا گیا ۔ جس کا بیان آیت «وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیثَاقَہُمْ» ۱؎ (33-الأحزاب:7) میں ہے ۔ اسی عام میثاق کا بیان آیت «فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللہِ » ۱؎ (30-الروم:30) میں ہے ۔ اسی لیے فرمان ہے «ہٰذَا نَذِیرٌ مِّنَ النٰذُرِ الْأُولَیٰ» ۱؎ (53-النجم:56) اسی کا بیان اس آیت میں ہے «وَمَا وَجَدْنَا لِأَکْثَرِہِم مِّنْ عَہْدٍ» ۱؎ (7-الأعراف:102) [ مسند احمد ] مجاہد ، عکرمہ ، سعید بن جبیر ، حسن ، قتادہ ، سدی اور بہت سے سلف رحمۃ اللہ علیہم سے ان احادیث کے مطابق اقوال مروی ہیں جن سب کے وارد کرنے سے بہت طول ہو جائے گا ۔ ماحصل سب کا یہی ہے جو ہم نے بیان کر دیا ۔ اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو آپ کی پیٹھ سے نکالا ۔ جنتی ، دوزخی الگ الگ کئے اور وہیں ان کو اپنے رب ہونے پر گواہ کر لیا ۔ یہ جن دو احادیث میں ہے ، وہ دونوں مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہیں ۔ اسی لیے سلف و خلف میں اس بات کے قائل گزرے ہیں کہ اس سے مراد فطرت پر پیدا کرنا ہے ۔ جیسے کہ مرفوع اور صحیح احادیث میں وارد ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت میں «مِن بَنِی آدَمَ» فرمایا اور «مِن ظُہُورِہِمْ» کہا ، ورنہ «مِنْ اٰدَمَ» اور «مِنْ ظَھْرِہِ» ہوتا ۔ ان کی نسلیں اس روز نکالی گئیں جو کہ یکے بعد دیگرے مختلف قرنوں میں ہونے والی تھیں ۔ جیسے فرمان ہے «وَہُوَ الَّذِی جَعَلَکُمْ خَلَائِفَ الْأَرْضِ» ۱؎ (6-الأنعام:165) ’ اللہ ہی نے تمہیں زمین میں دوسروں کا جانشین کیا ہے ۔ ‘ اور جگہ ہے : وہی تمہیں زمین کا خلیفہ بنا رہا ہے ۔ اور آیت میں ہے : جیسے تمہیں دوسرے لوگوں کی اولاد میں کیا ۔ الغرض حال و قال سے سب نے اللہ کے رب ہونے کا اقرار کیا ۔ شہادت قولی ہوتی ہے . جیسے آیت «قَالُوا شَہِدْنَا عَلَیٰ أَنفُسِنَا» ۱؎ (6-الأنعام:130) میں ۔ اور شہادت کبھی حال ہوتی ہے ۔ جیسے آیت «مَا کَانَ لِلْمُشْرِکِینَ أَن یَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللہِ شَاہِدِینَ عَلَیٰ أَنفُسِہِم بِالْکُفْرِ» ۱؎ (9-التوبۃ:17) میں یعنی ان کا حال ان کے کفر کی کھلی اور کافی شہادت ہے ۔ اس طرح کی آیت «وَإِنَّہُ عَلَیٰ ذٰلِکَ لَشَہِیدٌ» ۱؎ (100-العادیات:7) ہے ۔ اسی طرح سوال بھی کبھی زبان سے ہوتا ہے ، کبھی حال سے ۔ جیسے فرمان ہے «وَآتَاکُم مِّن کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہُ» ۱؎ (14-إبراہیم:34) ’ اس نے تمہیں تمہارا منہ مانگا دیا ۔ ‘ کہتے ہیں کہ اس بات کی دلیل بھی ہے کہ ان کے شرک کرنے پر یہ حجت ان کے خلاف پیش کی ۔ پس اگر یہ واقع میں ہوا ہوتا ، جیسا کہ ایک قول ہے تو چاہیئے تھا کہ ہر ایک کو یاد ہوتا تاکہ اس پر حجت رہے ۔ اگر اس کا جواب یہ ہو کہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر پا لینا کافی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسولوں کو ہی نہیں مانتے ، وہ رسولوں کی دی ہوئی خبروں کو کب صحیح جانتے ہیں ؟ حالانکہ قرآن کریم نے رسولوں کی تکذیب کے علاوہ خود اس شہادت کو مستقل دلیل ٹھہرایا ہے ۔ پس اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سے مراد فطرت ربانی ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے اور وہ فطرت توحید باری تعالیٰ ہے ۔ اسی لیے فرمایا ہے کہ یہ اس لیے کہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہہ سکو کہ ہم توحید سے غافل تھے اور یہ بھی نہ کہہ سکو کہ شرک تو ہمارے اگلے باپ دادوں نے کیا تھا ، ان کے اس ایجاد کردہ گناہ پر ہمیں سزا کیوں ؟ پھر تفصیل وار آیات کا بیان فرمانے کا راز ظاہر کیا کہ اس کو سن کر برائیوں سے باز آ جانا ممکن ہو جاتا ہے ۔