وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا ۖ قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ ۚ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُم بِهِ إِيمَانُكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
اور جب ہم نے تم سے عہد لیا، اور طور پہاڑ (١٤٦) کو تمہارے اوپر اٹھایا (اور کہا) کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے پوری قوت کے ساتھ تھام لو اور سنو، تو انہوں نے کہا کہ ہم نے سن لیا اور ہم کرنے کے نہیں، اور ان کے دلوں میں، ان کے کفر کی وجہ سے بچھڑے کی محبت (١٤٧) بٹھا دی گئی۔ آپ کہہ دیجئے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا ایمان تمہیں بڑی بری بات (١٤٨) کا حکم دیتا ہے
صدائے باز گشت اللہ تبارک و تعالیٰ بنی اسرائیل کی خطائیں مخالفتیں سرکشی اور حق سے روگردانی بیان فرما رہا ہے کہ طور پہاڑ جب سروں پر دیکھا تو اقرار کر لیا جب وہ ہٹ گیا تو پھر منکر ہو گئے ۔ اس کی تفسیر بیان ہو چکی ہے بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں رچ گئی ۔ جیسے کہ حدیث میں ہے کہ کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا بنا دیتی ہے ۔ (سنن ابوداود:5130 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) موسیٰ علیہ السلام نے اس بچھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے جلا کر اس کی راکھ کو ہوا میں اڑا کر دریا میں ڈال دیا تھا جس پانی کو بنی اسرائیل نے پی لیا اور اس کا اثر ان پر ظاہر ہوا گو بچھڑا نیست و نابود کر دیا گیا لیکن ان کے دلوں کا تعلق اب بھی اس معبود باطل سے لگا رہا دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم ایمان کا دعویٰ کس طرح کرتے ہو ؟ اپنے ایمان پر نظر نہیں ڈالتے ؟ باربار کی عہد شکنیاں کئی بار کے کفر بھول گئے ؟ موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تم نے کفر کیا ان کے بعد کے پیغمبروں کے ساتھ تم نے سرکشی کی یہاں تک کہ افضل الانبیاء ختم المرسلین محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بھی نہ مانا جو سب سے بڑا کفر ہے ۔