سورة الفاتحة - آیت 1

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بسم اللہ سورہ نمل کی ایک آیت یا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اللہ کی کتاب کو اسی یعنی ( «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ) سے شروع کیا ۔ علماء کا اتفاق ہے کہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سورۃ نمل کی ایک آیت ہے ۔ البتہ اس میں اختلاف ہے کہ وہ ہر سورت کے شروع میں خود مستقل آیت ہے ؟ یا ہر سورت کی ایک مستقل آیت ہے جو اس کے شروع میں لکھی گئی ہے ؟ یا ہر سورت کی آیت کا جزو ہے ؟ یا صرف سورۃ فاتحہ ہی کی آیت ہے اور دوسری سورتوں کی نہیں ؟ صرف ایک سورت کو دوسری سورت سے علیحدہ کرنے کے لیے لکھی گئی ہے ؟ اور خود آیت نہیں ہے ؟ علماء سلف اور خلف کا ان آرا میں اختلاف چلا آتا ہے ان کی تفصیل اپنی جگہ پر موود ہے ۔ سنن ابوداؤد میں صحیح سند کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورتوں کی جدائی نہیں جانتے تھے جب تک آپ پر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» نازل نہیں ہوتی تھی} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:788،قال الشیخ الألبانی:صحیح) یہ حدیث مستدرک حاکم میں بھی ہے ۲؎ (مستدرک حاکم:231/1) ایک مرسل حدیث میں یہ روایت سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے ۔ چنانچہ صحیح ابن خزیمہ میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «بِسْمِ اللہِ » کو سورۃ فاتحہ کے شروع میں نماز میں پڑھا اور اسے ایک آیت شمار کیا} ۳؎ (ابن خزیمہ:493:ضعیف) لیکن اس کے ایک راوی عمر بن ہارون بلخی ضعیف ہیں اسی مفہوم کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۴؎ ۔ (دارقطنی:312/1:ضعیف) سیدنا علی ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، سیدنا عبداللہ بن زبیر ، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم ، عطا ، طاؤس ، سعید بن جبیر ، مکحول اور زہری رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » ہر سورت کے آغاز میں ایک مستقل آیت ہے سوائے سورۃ برات کے ۔ ان صحابہ اور تابعین کے علاوہ عبداللہ بن مبارک ، امام شافعی ، امام احمد اور اسحٰق بن راہویہ اور ابوعبیدہ قاسم بن سلام رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں ۔ کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ نہ تو سورۃ فاتحہ کی آیت ہے نہ کسی اور سورت کی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ «بِسْمِ اللہِ » الخ سورۃ فاتحہ کی تو ایک آیت ہے لیکن کسی اور سورۃ کی نہیں ۔ ان کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہر سورت کے اول کی آیت کا حصہ ہے لیکن یہ دونوں قول غریب ہیں ۔ داؤد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول میں «بِسْمِ اللہِ » ایک مستقل آیت ہے سورت میں داخل نہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت ہے ۱؎ اور ابوبکر رازی رحمہ اللہ نے ابوحسن کرخی رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب بیان کیا ہے جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بڑے پایہ کے ساتھی تھے ۔ یہ تو تھی بحث «بِسْمِ اللہِ » کے سورۃ فاتحہ کی آیت ہونے یا نہ ہونے کی ۔ [ صحیح مذہب یہی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن پاک میں یہ آیت شریفہ ہے وہاں مستقل آیت ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] بسم اللہ با آواز بلند یا دبی آواز سے؟ اب اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اسے با آواز بلند پڑھنا چاہیئے یا پست آواز سے ؟ جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ کی آیت نہیں کہتے وہ تو اسے بلند آواز سے پڑھنے کے بھی قائل نہیں ۔ اسی طرح جو لوگ اسے سورۃ فاتحہ سے الگ ایک آیت مانتے ہیں وہ بھی اس کے پست آواز سے پڑھنے کے قائل ہیں ۔ رہے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ یہ ہر سورت کے اول سے ہے ۔ ان میں اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا تو مذہب ہے کہ سورۃ فاتحہ اور ہر سورت سے پہلے اسے اونچی آواز سے پڑھنا چاہیئے ۔ صحابہ ، تابعین اور مسلمانوں کے مقدم و مؤخر امامین کی جماعتوں کا یہی مذہب ہے صحابہ میں سے اسے اونچی آواز سے پڑھنے والے سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا ابن عمر ، سیدنا ابن عباس ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہم ہیں ۔ بیہقی رحمہ اللہ اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے سیدنا عمر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما سے بھی روایت کیا ۱؎ اور سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم سے بھی غریب سند سے امام خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے۔ تابعین میں سے سعید بن جبیر ، عکرمہ ، ابوقلابہ ، زہری ، علی بن حسن ان کے لڑکے محمد ، سعید بن مسیب ، عطاء ، طاؤس ، مجاہد ، سالم ، محمد بن کعب قرظی ، عبید ، ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم ، ابووائل ابن سیرین ، محمد بن منکدر ، علی بن عبداللہ بن عباس ان کے صاحبزادے محمد نافع ابن عمر کے مولیٰ زید بن اسلم ، عمر بن عبدالعزیز ، ارزق بن قیس ، حبیب بن ابی ثابت ، ابوشعثا ، مکحول ، عبداللہ بن معقل بن مقرن اور بروایت بیہقی ، عبداللہ بن صفوان ، محمد بن حنفیہ اور بروایت ابن عبدالبر عمرو بن دینار رحمہم اللہ سب کے سب ان نمازوں میں جن میں قرأت اونچی آواز سے پڑھی جاتی ہے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی بلند آواز سے پڑھتے تھے ۔ ایک دلیل تو اس کی یہ ہے کہ جب یہ آیت سورۃ فاتحہ میں سے ہے تو پھر پوری سورت کی طرح یہ بھی اونچی آواز سے ہی پڑھنی چاہیئے ۔ علاوہ ازیں سنن نسائی ، صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان ، مستدرک حاکم میں مروی ہے کہ {سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی اور قرأت میں اونچی آواز سے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» بھی پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا میں تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں مشابہ ہوں} ۱؎ ۔ (سنن نسائی:906،تخریج دارالدعوہ:صحیح) اس حدیث کو دارقطنی ، خطیب اور بیہقی وغیرہ نے صحیح کہا ہے ۲؎ ۔ ابوداؤد اور ترمذی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع کیا کرتے تھے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:245،قال الشیخ الألبانی:ضعیف الإسناد) امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ حدیث ایسی زیادہ صحیح نہیں ۔ مستدرک حاکم میں انہی سے روایت ہے کہ {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کو اونچی آواز سے پڑھتے تھے} ۴؎ ۔ (مستدرک حاکم:208/1:ضعیف جدا) امام حاکم نے اسے صحیح کہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز قرات صحیح بخاری میں ہے کہ {انس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کس طرح تھی ۔ فرمایا کہ ہر کھڑے لفظ کو آپ لمبا کر کے پڑھتے تھے پھر «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھ کر سنائی «بِسْمِ اللہِ » پر مد کیا «الرَّحْمٰنِ» پر مد کیا «الرَّحِیمِ» پر مد کیا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5046) مسند احمد ، سنن ابوداؤد ، صحیح ابن خزیمہ اور مستدرک حاکم میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہر آیت پر رکتے تھے اور آپ کی قرأت الگ الگ ہوتی تھی جیسے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» پھر ٹھہر کر «لرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پھر ٹھہر کر «مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ»} ۲؎ ۔ (سنن ترمذی:2927،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دارقطنی اسے صحیح بتاتے ہیں ۳؎ ۔ امام شافعی ، امام حاکم نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ {معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں نماز پڑھائی اور «بِسْمِ اللہِ » نہ پڑھی تو جو مہاجر اصحاب رضی اللہ عنہم وہاں موجود تھے انہوں نے ٹوکا ۔ چنانچہ پھر وہ جب نماز پڑھانے کو کھڑے ہوئے تو «بِسْمِ اللہِ » پڑھی} ۴؎ ۔ (مسند شافعی:80/1:حسن) غالباً اتنی ہی احادیث و آثار اس مذہب کی حجت کے لیے کافی ہیں ۔ باقی رہے اس کے خلاف آثار ، روایات ، ان کی سندیں ، ان کی تعلیل ، ان کا ضعف اور ان کی تقاریر وغیرہ ان کا دوسرے مقام پر ذکر اور ہے ۔ دوسرا مذہب یہ ہے کہ نماز میں «بِسْمِ اللہِ » کو زور سے نہ پڑھنا چاہیئے ۔ خلفاء اربعہ اور عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہم ، تابعین اور بعد والوں کی جماعتوں سے یہ ثابت ہے ۔ امام ابوحنیفہ ، امام ثوری ، امام احمد بن حنبل کا بھی یہی مذہب ہے ۔ امام مالک کا مذہب ہے کہ سرے سے «بِسْمِ اللہِ » پڑھے ہی نہیں نہ تو آہستہ نہ بلند ۱؎ ۔ ان کی دلیل ایک تو صحیح مسلم والی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو تکبیر سے اور قرأت کو «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کیا کرتے تھے} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:498) صحیحین میں ہے انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں {میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے پیچھے نماز پڑھی یہ سب «الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ» سے ہی شروع کرتے تھے} ۳؎ ۔ (صحیح بخاری:743) صحیح مسلم میں ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » نہیں پڑھتے تھے نہ تو قرأت کے شروع میں نہ اس قرأت کے آخر میں} ۴؎ ۔ (صحیح مسلم:399) سنن میں عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے بھی یہی مروی ہے ۵؎ ۔ (سنن ترمذی:244،قال الشیخ الألبانی: ضعیف) یہ ہے دلیل ان ائمہ کے «بِسْمِ اللہِ » آہستہ پڑھنے کی ۔ یہ خیال رہے کہ یہ کوئی بڑا اختلاف نہیں ہر ایک فریق دوسرے کی نماز کی صحت کا قائل ہے ۔ «فالْحَمْدُ لِلّٰہ» [ «بِسْمِ اللہِ » کا مطلق نہ پڑھنا تو ٹھیک نہیں ۔ بلند و پست پڑھنے کی احادیث میں اس طرح تطبیق ہو سکتی ہے کہ دونوں جائز ہیں ۔ گو پست پڑھنے کی احادیث قدرے زور دار ہیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ مترجم ] فصل بسم اللہ کی فضیلت کا بیان تفسیر ابن ابی حاتم میں ہے کہ {عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «بِسْمِ اللہِ » کی نسبت سوال کیا آپ نے فرمایا : ”یہ اللہ تعالیٰ کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بڑے ناموں اور اس میں اس قدر نزدیکی ہے جیسے آنکھ کی سیاہی اور سفیدی میں“} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:21/1:موضوع باطل) ابن مردویہ میں بھی اسی طرح کی روایت ہے ۔ اور یہ روایت بھی ابن مردویہ میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جب عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی والدہ نے معلم کے پاس بٹھایا تو اس نے کہا لکھئے «بِسْمِ اللہِ » عیسیٰ علیہ السلام نے کہا «بِسْمِ اللہِ » کیا ہے ؟ استاد نے جواب دیا میں نہیں جانتا ۔ آپ نے فرمایا : «ب» سے مراد اللہ تعالیٰ کا «بہا» یعنی بلندی ہے اور «س» سے مراد اس کی «سنا» یعنی نور اور روشنی ہے اور «م» سے مراد اس کی مملکت یعنی بادشاہی ہے اور «اللہ» کہتے ہیں معبودوں کے معبود اور اور «رحمن» کہتے ہیں دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والے کو «رحیم» کہتے ہیں ۔ آخرت میں کرم و رحم کرنے والے کو“} ۲؎ ۔ (الکامل لابن عدی:303/1:موضوع باطل) ابن جریر میں بھی یہی روایت ہے ۳؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:140:موضوع باطل) لیکن سند کی رو سے یہ بے حد غریب ہے ، ممکن ہے کسی صحابی وغیرہ سے مروی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں سے ہو ۔ مرفوع حدیث نہ ہو «وَاللہُ اَعْلَمُ»۔ ابن مردویہ میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر ایک ایسی آیت اتری ہے جو کسی اور نبی پر سوائے سلیمان علیہ السلام کے نہیں اتری ۔ وہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» ہے ۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب یہ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» اتری بادل مشرق کی طرف چھٹ گئے ۔ ہوائیں ساکن ہو گئیں ۔ سمندر ٹھہر گیا جانوروں نے کان لگا لیے ۔ شیاطین پر آسمان سے شعلے گرے اور پروردگار عالم نے اپنی عزت و جلال کی قسم کھا کر فرمایا کہ جس چیز پر میرا یہ نام لیا جائے گا اس میں ضرور برکت ہو گی ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے انیس داروغوں سے جو بچنا چاہے وہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھے ، اس کے بھی انیس حروف ہیں ، ہر حرف ہر فرشتے سے بچاؤ بن جائے گا ۔ اسے ابن عطیہ نے بیان کیا ہے ۔ اس کی تائید ایک اور حدیث سے بھی کی ہے جس میں {آپ نے فرمایا :”میں نے تیس سے اوپر فرشتوں کو دیکھا کہ وہ جلدی کر رہے تھے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب ایک شخص نے «رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ» پڑھا تھا“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:799) اس میں بھی تیس سے اوپر حروف ہیں اتنے ہی فرشتے اترے اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » میں بھی انیس حروف ہیں اور وہاں فرشتوں کی تعداد بھی انیس ہے وغیرہ وغیرہ ۔ مسند احمد میں ہے {نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جو صحابی سوار تھے ، ان کا بیان ہے کہ آپ کی اونٹنی ذرا پھسلی تو میں نے کہا شیطان کا ستیاناس ہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ نہ کہو اس سے شیطان پھولتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ گویا اس نے اپنی قوت سے گرایا ۔ ہاں «بِسْمِ اللہِ » کہنے سے وہ مکھی کی طرح ذلیل و پست ہو جاتا ہے“} ۱؎ ۔ (سنن ابوداود:4982،قال الشیخ الألبانی:صحیح) نسائی نے اپنی کتاب «عمل الیوم واللیلہ» میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے نقل کیا ہے اور صحابی کا نام اسامہ بن عمیر بتایا ہے اس میں یہ لکھا ہے کہ {«بِسْمِ اللہِ » کہہ کر «بِسْمِ اللہِ » کی برکت سے شیطان ذلیل ہو گا} ۲؎ ۔ (النسائی فی عمل الیوم واللیہ:559:صحیح بالشواھد) اسی لیے ہر کام اور ہر بات کے شروع میں «بِسْمِ اللہِ » کہہ لینا مستحب ہے ۔ خطبہ کے شروع میں بھی «بِسْمِ اللہِ » کہنی چاہیئے ۔ حدیث میں ہے کہ {جس کام کو «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکتا ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:1894،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) بیت الخلاء [پاخانہ] میں جانے کے وقت «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے ۱؎ ۔ (سنن ترمذی:606،قال الشیخ الألبانی: صحیح) حدیث میں یہ بھی ہے کہ وضو کے وقت بھی پڑھ لے ۔ مسند احمد اور سنن میں ابوہریرہ ، سعید بن زید اور ابوسعید رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جو شخص وضو میں اللہ کا نام نہ لے اس کا وضو نہیں ہوتا“} ۲؎ ۔ (سنن ابن ماجہ:399،قال الشیخ الألبانی:حسن) یہ حدیث حسن ہے بعض علماء تو وضو کے وقت آغاز میں «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» پڑھنا واجب بتاتے ہیں ۔ بعض مطلق وجوب کے قائل ہیں ۔ جانور کو ذبح کرتے وقت بھی اس کا پڑھنا مستحب ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک جماعت کا یہی خیال ہے ۔ بعض نے یاد آنے کے وقت اور بعض نے مطلقاً اسے واجب کہا ہے اس کا تفصیلی بیان عنقریب آئے گا «ان شاءاللہ تعالیٰ» ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کی فضیلت میں بہت سی احادیث نقل کی ہیں ۔ ایک میں ہے کہ ” جب تو اپنی بیوی کے پاس جائے اور «بِسْمِ اللہِ » پڑھ لے اور اللہ کوئی اولاد بخشے تو اس کے اپنے اور اس کی اولاد کے سانسوں کی گنتی کے برابر تیرے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جائیں گی ۔“ لیکن یہ روایت بالکل بے اصل ہے ، میں نے تو یہ کہیں کسی معتبر کتاب میں نہیں پائی ۔ کھاتے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی مستحب ہے ۔ صحیح مسلم [و بخاری] میں ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”[ جو آپ کی پرورش میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے اگلے خاوند سے تھے ] کہ «بِسْمِ اللہِ » کہو اور اپنے داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور اپنے سامنے سے نوالہ اٹھایا کرو“} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:5376) بعض علماء اس وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » کا کہنا واجب بتلاتے ہیں ۔ بیوی سے ملنے [جماع] کے وقت بھی «بِسْمِ اللہِ » پڑھنی چاہیئے ۔ صحیحین میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے ملنے کا ارادہ کرے تو یہ پڑھے «بِاسْمِ اللہِ ، اللہُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا» یعنی اے اللہ ہمیں اور جو ہمیں تو دے اسے شیطان سے بچا ۔“ فرماتے ہیں کہ اگر اس جماع سے حمل ٹھہر جائے تو اس بچہ کو شیطان کبھی نقصان نہ پہنچا سکے گا} ۱؎ ۔ (صحیح بخاری:141) یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ «بِسْمِ اللہِ » کی «ب» کا تعلق کس سے ہے نحویوں کے اس میں دو قول ہیں اور دونوں ہی تقریباً ہم خیال ہیں ۔ بعض اسم کہتے ہیں اور بعض فعل ، ہر ایک کی دلیل قرآن سے ملتی ہے جو لوگ اسم کے ساتھ متعلق بتاتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ «بِسْمِ اللہِ اِبْتِدَائِی» یعنی اللہ کے نام سے میری ابتداء ہے ۔ قرآن میں ہے «وَقَالَ ارْکَبُوا فِیہَا بِسْمِ اللہِ مَجْرَاہَا وَمُرْسَاہَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ» ۲؎ (11-ہود:41) اس میں اسم یعنی مصدر ظاہر کر دیا گیا ہے اور جو لوگ فعل مقدر بتاتے ہیں چاہے وہ امر ہو یا خبر ۔ جیسے کہ «أَبْدَأُ بِسْمِ اللہِ » اور «ابتدات بِسْمِ اللہِ » ان کی دلیل آیت «قْرَأْ بِاسْمِ» ۳؎ الخ ہے۔ دراصل دونوں ہی صحیح ہیں ، اس لیے کہ فعل کے لیے بھی مصدر کا ہونا ضروری ہے تو اختیار ہے کہ فعل کو مقدر مانا جائے اور اس کے مصدر کو مطابق اس فعل کے جس کا نام پہلے لیا گیا ہے ۔ کھڑا ہونا ہو، بیٹھنا ہو ، کھانا ہو ، پینا ہو ، قرآن کا پڑھنا ہو ، وضو اور نماز وغیرہ ہو ، ان سب کے شروع میں برکت حاصل کرنے کے لیے امداد چاہنے کے لیے اور قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ کا نام لینا مشروع ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم میں روایت ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ {جب سب سے پہلے جبرائیل علیہ السلام ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر آئے تو فرمایا : اے محمد ! کہئے «أَسْتَعِیذ بِاَللَّہِ السَّمِیع الْعَلِیم مِنْ الشَّیْطَان الرَّجِیم» پھر کہا کہئے «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» مقصود یہ تھا کہ اٹھنا ، بیٹھنا ، پڑھنا سب اللہ کے نام سے شروع ہو} ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:137:ضعیف منقطع) بے معنی بحث اسم یعنی نام ہی «مُسَمَّی» یعنی نام والا ہے یا کچھ اور اس میں اہل علم کے تین قول ہیں ایک تو یہ کہ اسم ہی «مُسَمَّی» ہے ۔ ابوعبیدہ کا اور سیبویہ کا بھی یہی قول ہے ۔ باقلانی اور ابن فورک کی رائے بھی یہی ہے ۔ ابن خطیب رازی اپنی تفسیر کے مقدمات میں لکھتے ہیں ۔ حشویہ اور کرامیہ اور اشعریہ تو کہتے ہیں اسم نفس «مُسَمَّی» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» کا «غَیْر» ہے اور معتزلہ کہتے ہیں کہ اسم «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور نفس «تَّسْمِیَۃ» ہے ۔ ہمارے نزدیک اسم «مُسَمَّی» کا بھی «غَیْر» ہے اور «تَّسْمِیَۃ»ہ کا بھی ۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر اسم سے مراد لفظ ہے جو آوازوں کے ٹکڑوں اور حروف کا مجموعہ ہے تو بالبداہت ثابت ہے کہ یہ «مُسَمَّی» کا «غَیْر» ہے اور اگر اسم سے مراد ذات «مُسَمَّی» ہے تو یہ وضاحت کو ظاہر کرتا ہے جو محض بیکار ہے ۔ ثابت ہوا کہ اس بیکار بحث میں پڑنا ہی فضول ہے ۔ اس کے بعد جو لوگ اسم اور «مُسَمَّی» کے فرق پر اپنے دلائل لائے ہیں ، ان کا کہنا ہے محض اسم ہوتا ہے «مُسَمَّی» ہوتا ہی نہیں ۔ جیسے «مَعْدُوم» کا لفظ ۔ کبھی ایک «مُسَمَّی» کے کئی اسم ہوتے ہیں جیسے مترادف کبھی اسم ایک ہوتا ہے اور «مُسَمَّی» کئی ہوتے ہیں جیسے مشترک ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم اور چیز ہے اور «مُسَمَّی» اور چیز ہے یعنی نام الگ ہے ۔ اور نام والا الگ ہے ۔ اور دلیل سنئیے کہتے ہیں اسم تو لفظ ہے دوسرا عرض ہے ۔ «مُسَمَّی» کبھی ممکن یا واجب ذات ہوتی ہے ۔ اور سنئیے اگر اسم ہی کو «مُسَمَّی» مانا جائے تو چاہیئے کہ آگ کا نام لیتے ہی حرارت محسوس ہو اور برف کا نام لیتے ہی ٹھنڈک ۔ جبکہ کوئی عقلمند اس کی تصدیق نہیں کرتا ۔ اور دلیل سنئیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» کہ ’اللہ کے بہت سے بہترین نام ہیں ، تم ان ناموں سے اسے پکارو‘ ۱؎ ۔ (7-الأعراف:180) حدیث شریف ہے کہ ’اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ۲؎ (صحیح مسلم:2677) تو خیال کیجئے کہ نام کس قدر بکثرت ہیں حالانکہ «مُسَمَّی» ایک ہی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ «وحدہ لاشریک لہ» ہے اسی طرح «اسماء» کو اللہ کی طرف اس آیت میں مضاف کرنا ۔ اور جگہ فرمانا : «فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیمِ» ۳؎ (56-الواقعۃ:74) وغیرہ یہ اضافت بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے کہ اسم اور ہو اور «مُسَمَّی» اور کیونکہ اضافت کا مقتضا مغائرت کا ہے ۔ اسی طرح یہ «وَلِلہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ فَادْعُوہُ بِہَا» یعنی ’اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں کے ساتھ پکارو‘ ۴؎ (7-الأعراف:180) یہ بھی اس امر کی دلیل ہے کہ نام اور ہے نام والا اور ۔ اب ان کے دلائل بھی سنئیے جو اسم اور «مُسَمَّی» کو ایک ہی بتاتے ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : «تَبَارَکَ اسْمُ رَبِّکَ ذِی الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» ’جلال و اکرام والے تیرے رب کا بابرکت نام ہے‘ ۵؎ (55-الرحمن:78) تو نام برکتوں والا فرمایا حالانکہ خود اللہ تعالیٰ برکتوں والا ہے ۔ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس مقدس ذات کی وجہ سے اس کا نام بھی عظمتوں والا ہے ۔ ان کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ زینب پر طلاق ہے تو طلاق اس کی بیوی جس کا نام زینب ہے ہو جاتی ہے ۔ اگر نام اور نام والے میں فرق ہوتا تو نام پر طلاق پڑتی ، نام والے پر کیسے پڑتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے مراد یہی ہوتی ہے کہ اس ذات پر طلاق ہے جس کا نام زینت ہے ۔ تسمیہ کا اسم سے الگ ہونا اس دلیل کی بنا پر ہے کہ تسمیہ کہتے ہیں کسی کا نام مقرر کرنے کو اور ظاہر ہے یہ اور چیز ہے اور نام والا اور چیز ہے ۔ رازی کا قول یہی ہے کہ یہ سب کچھ تو لفظ «باسم» کے متعلق تھا ۔ اب لفظ «اللہ» کے متعلق سنئے ۔ اللہ خاص نام ہے رب تبارک و تعالیٰ کا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم یہی ہے اس لیے کہ تمام عمدہ صفتوں کے ساتھ ہی موصوف ہوتا ہے ۔ جیسے کہ قرآن پاک میں ہے «ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیمُ * ہُوَ اللہُ الَّذِی لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدٰوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُونَ * ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ یُسَبِّحُ لَہُ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ» ۶؎ (59-الحشر:22-23-24) یعنی ’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو ظاہر و باطن کا جاننے والا ہے ، جو رحم کرنے والا مہربان ہے ، وہی اللہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، جو بادشاہ ہے پاک ہے ، سلامتی والا ہے ، امن دینے والا ہے ، محافظ ہے ، غلبہ والا ہے ، زبردست ہے ، بڑائی والا ہے ، وہ ہر شرک سے اور شرک کی چیز سے پاک ہے ۔ وہی اللہ پیدا کرنے والا ، مادہ کو بنانے والا ، صورت بخشنے والا ہے ۔ اس کے لیے بہترین پاکیزہ نام ہیں ، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی تسبیح بیان کرتی ہیں ۔ وہ عزتوں اور حکمتوں والا ہے‘ ۔ ان آیتوں میں تمام نام صفاتی ہیں ، اور لفظ اللہ ہی کی صفت ہیں یعنی اصلی نام «اللہ» ہے ۔ دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے ہیں پاکیزہ اور عمدہ عمدہ نام ۔ اللہ تعالٰی نے اپنے تمام (صفاتی) نام خود تجویز فرمائے ہیں پس تم اس کو ان ہی ناموں سے پکارو ۔ اور فرماتا ہے «ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» الخ یعنی ’اللہ کو پکارو ۔ یا رحمن کو پکارو ، جس نام سے پکارو ، اسی کے پیارے پیارے اور اچھے اچھے نام ہیں‘ ۱؎ (17-الإسراء:110) بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں ۔ ایک کم ایک سو جو انہیں یاد کر لے جنتی ہے} ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:7392) ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت میں ان ناموں کی تفصیل بھی آئی ہے ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3507،قال الشیخ الألبانی:صحیح، ضعیف بسرد الأسماء) اور دونوں کی روایتوں میں الفاظ کی کچھ تبدیلی کچھ کمی زیادتی بھی ہے ۔ رازی نے اپنی تفسیر میں بعض لوگوں سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پانچ ہزار نام ہیں ۔ ایک ہزار تو قرآن شریف اور صحیح حدیث میں ہیں اور ایک ہزار توراۃ میں اور ایک ہزار انجیل میں اور ایک ہزار زبور میں اور ایک ہزار لوح محفوظ میں ۔ اللہ کے مترادف المعنی کوئی نام نہیں «اللہ» ہی وہ نام ہے جو سوائے اللہ تبارک و تعالیٰ کے کسی اور کا نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک عرب کو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا اشتقاق کیا ہے اس کا باب کیا ہے بلکہ ایک بہت بڑی نحویوں کی جماعت کا خیال ہے کہ یہ اسم جامد ہے اور اس کا کوئی اشتقاق ہے ہی نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے علماء کرام کی ایک بڑی جماعت کا یہی مذہب نقل کیا ہے جن میں امام شافعی رحمہ اللہ، امام خطابی رحمہ اللہ، امام الحرمین امام غزالی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ خلیل اور سیبویہ سے روایت ہے کہ «الف لام» اس میں لازم ہے ۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ «یااللہ» تو کہہ سکتے ہیں مگر «یاالرَّحْمٰنِ» کہتے کسی کو نہیں سنا اگر لفظ «اللہ» میں «الف لام» اصل کلمہ کا نہ ہوتا تو اس پر ندا کا لفظ «یا» داخل نہ ہو سکتا کیونکہ قواعد عربی کے لحاظ سے حرف ندا کا لفظ لام والے اسم پر داخل ہونا جائز نہیں ۔ بعض لوگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ مشتق ہے اور اس پر روبہ بن عجاج کا ایک شعر دلیل لاتے ہیں جس میں «مَصْدَرِ التَّأَلٰہ» ، کا بیان ہے جس کا ماضی مضارع «أَلِہ» «یَأْلَہُ» ، «إِلَاہَۃً» اور «تَأَلٰہًا» ہے جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ «وَیَذَرَکَ وَإِلَاہَتَکَ» پڑھتے تھے ، مراد اس سے عبادت ہے ۔ یعنی اس کی عبادت کی جاتی ہے اور وہ کسی کی عبادت نہیں کرتا ۔ مجاہد وغیرہ کہتے ہیں ۔ بعض نے اس پر اس آیت سے دلیل پکڑی ہے کہ آیت «وَہُوَ اللہُ فِی السَّمَاوَاتِ وَفِی الْأَرْضِ» ۱؎ (6-الأنعام:3) الخ یعنی ’وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَہُوَ الَّذِی فِی السَّمَاءِ إِلٰہٌ وَفِی الْأَرْضِ إِلٰہٌ» ۲؎ (43-الزخرف:84) الخ یعنی ’وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور زمین میں معبود ہے‘ ۔ سیبویہ خلیل سے نقل کرتے ہیں کہ اصل میں یہ «إِلَاہٌ» تھا جیسے «فِعَالٍ» پھر ہمزہ کے بدلے «الف و لام» لایا گیا جیسے «النَّاسِ» کہ اس کی اصل «أُنَاسٌ» ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اس لفظ کی اصل «إِلَاہٌ» ہے «الف لام» حرف تعظیم کے طور پر لایا گیا ہے ۔ سیبویہ کا بھی پسندیدہ قول یہی ہے ۔ عرب شاعروں کے شعروں میں بھی یہ لفظ ملتا ہے ۔ کسائی اور فرا کہتے ہیں کہ اس کی اصل «الْإِلَہُ» تھی ہمزہ کو حذف کیا اور پہلے «لام» کو دوسرے میں ادغام کیا جیسے کہ آیت «لٰکِنَّا ہُوَ اللہُ رَبِّی وَلَا أُشْرِکُ بِرَبِّی أَحَدًا» ۳؎ (18-الکہف:38) میں «لَکِنَّ أَنَا» کا «لَکِنَّا» ہوا ہے ۔ چنانچہ حسن کی قرأت میں «لَکِنَّ أَنَا» ہی ہے اور اس کا اشتقاق «وَلِہَ» سے ہے اور اس کے معنی «تَحَیَّرَ» ہیں «وَلَہُ» عقل کے چلے جانے کو کہتے ہیں ۔ عربی میں «رَجُلٌ وَالِہٌ» اور «امْرَأَۃٌ وَلْہَی» اور «مَاءٌ مُولَہٌ» اس وقت کہتے ہیں جب وہ جنگل میں بھیج دیا جائے ۔ چونکہ ذات باری تعالیٰ میں اور اس کی صفتوں کی تحقیق میں عقل حیران و پریشان ہو جاتی ہے اس لیے اس پاک ذات کو اللہ کہا جاتا ہے ۔ اس بنا پر اصل میں یہ لفظ «وَلَّاہُ» تھا ۔ «واؤ» کو «ہمزہ» سے بدل دیا گیا جیسے کہ «وِشَاحٌ» اور «وَوِسَادَۃٍ» میں «أَشَاحُ» اور «أَسَادَۃٌ» کہتے ہیں ۔ رازی کہتے ہیں کہ یہ لفظ «أَلِہْتُ إِلَی فُلَانٍ» سے مشتق ہے جو کہ معنی میں «سَکَنْتُ» کے ہے ۔ یعنی میں نے فلاں سے سکون اور راحت حاصل کی ۔ چونکہ عقل کا سکون صرف ذات باری تعالیٰ کے ذکر سے ہے اور روح کی حقیقی خوشی اسی کی معرفت میں ہے اس لیے کہ علی الاطلاق کامل وہی ہے ، اس کے سوا اور کوئی نہیں اسی وجہ سے اللہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : «اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَـطْمَیِٕنٰ الْقُلُوْبُ» ۴؎ (13-الرعد:18) یعنی ’ایمانداروں کے دل صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہی اطمینان حاصل کرتے ہیں‘ ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ «لَاہَ یَلُوہُ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چھپ جانے اور حجاب کرنے کے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ «أَلِہَ الْفَصِیلُ» سے ہے چونکہ بندے اسی کی طرف تضرع اور زاری سے جھکتے ہیں اسی کے دامن رحمت کا پلہ ہر حال میں تھامتے ہیں ، اس لیے اسے اللہ کہا گیا ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب «أَلِہَ الرَّجُلُ یَأْلُہُ» اس وقت کہتے ہیں جب کسی اچانک امر سے کوئی گھبرا اٹھے اور دوسرا اسے پناہ دے اور بچا لے چونکہ تمام مخلوق کو ہر مصیبت سے نجات دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے ، اس لیے اس کو اللہ کہتے ہیں ۔ جیسے کہ قرآن کریم میں ہے : «وَّہُوَ یُجِیْرُ وَلَا یُجَارُ عَلَیْہِ» ۱؎ (23-المؤمنون:89) الخ یعنی ’وہی بچاتا ہے اور اس کے مقابل میں کوئی نہیں بچایا جاتا‘ ۔ «وَہُوَ الْمُنْعِمُ» حقیقی «الْمُنْعِمُ» وہی ہے ، فرماتا ہے «وَمَا بِکُمْ مِنْ نِعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ » ۲؎ (16-النحل:53) الخ یعنی ’تمہارے پاس جنتی نعمتیں ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں‘ ، وہی «مُطْعِمُ» ہے ، فرمایا ہے «وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ» ۳؎ (6-الأنعام:14) الخ یعنی ’وہ کھلاتا ہے اور اسے کوئی نہیں کھلاتا‘ ۔ وہی «موجد» ہے فرماتا ہے «قُلْ کُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللہِ » ۴؎ (4-النساء:78) الخ یعنی ’ہر چیز کا وجود اللہ کی طرف سے ہے‘ ۔ رازی کا مختار مذہب یہی ہے کہ لفظ اللہ مشتق نہیں ہے ۔ خلیل ، سیبویہ اکثر اصولیوں اور فقہاء کا یہی قول ہے ، اس کی بہت سی دلیلیں بھی ہیں اگر یہ مشتق ہوتا تو اس کے معنی میں بہت سے افراد کی شرکت ہوتی حالانکہ ایسا نہیں ۔ پھر اس لفظ کو موصوف بنایا جاتا ہے اور بہت سی اس کی صفتیں آتی ہیں جیسے « اللہُ» ، «الرَّحْمَنُ» ، «الرَّحِیمُ» ، «الْمَلِکُ» ، «الْقُدٰوسُ» وغیرہ تو معلوم ہوا کہ یہ مشتق نہیں ۔ قرآن میں ایک جگہ «الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ اللہ» ۱؎ (14-إبراہیم:1-2) الخ جو آتا ہے وہاں یہ «عَطْفِ» بیان ہے ۔ ایک دلیل ہے اس کے مشتق نہ ہونے کی یہ بھی ہے «ہَلْ تَعْلَمُ لَہُ سَمِیًّا» ۲؎ (19-مریم:65) الخ یعنی ’کیا اس کا ہم نام بھی کوئی جانتے ہو ؟‘ لیکن یہ غور طلب ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ لفظ عبرانی ہے لیکن رازی رحمہ اللہ نے اس قول کو ضعیف کہا ہے اور فی الواقع ضعیف ہے بھی ۔ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک وہ جو معرفت الٰہی کے کنارے پر پہنچ گئے دوسرے وہ جو اس سے محروم ہیں جو حیرت کے اندھیروں میں اور جہالت کی پرخار وادیوں میں پڑے ہیں وہ تو عقل کو رو بیٹھے اور روحانی کمالات کو کھو بیٹھے ہیں لیکن جو ساحل معرفت پر پہنچ چکے ہیں جو نورانیت کے وسیع باغوں میں جا ٹھہرے جو کبریائی اور جلال کی وسعت کا اندازہ کر چکے ہیں وہ بھی یہاں تک پہنچ کر حیران و ششدر رہ گئے ہیں ۔ غرض ساری مخلوق اس کی پوری معرفت سے عاجز اور سرگشتہ و حیران ہے ۔ ان معانی کی بنا پر اس پاک ذات کا نام اللہ ہے ۔ ساری مخلوق اس کی محتاج ، اس کے سامنے جھکنے والی اور اس کی تلاش کرنے والی ہے ۔ اس حقیقت کی وجہ سے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ جیسا کہ خلیل کا قول ہے عرب کے محاورے میں ہر اونچی اور بلند چیز کو «لَاہً» کہتے ہیں ۔ سورج جب طلوع ہوتا ہے تب بھی وہ کہتے ہیں «الشَّمْسُ لَاہَتْ» چونکہ پروردگار عالم بھی سب سے بلند و بالا ہے اس کو بھی اللہ کہتے ہیں ۔ اور «الْإِلَہُ» کے معنی عبادت کرنے اور «تَأَلَّہَ» کے معنی حکم برداری اور قربانی کرنے کے ہیں اور رب عالم کی عبادت کی جاتی ہے اور اس کے نام پر قربانیاں کی جاتی ہیں اس لیے اسے اللہ کہتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرأت میں ہے «وَیَذَرک وَإِلَاہَتک» اس کی اصل «الْإِلَہ» ہے پس صرف کلمہ کی جگہ جو ہمزہ ہے وہ حذف کیا گیا ۔ پھر نفس کلمہ کا «لام» زائد «لام» سے جو تعریف کے لیے لایا گیا ہے مل گیا اور پھر ایک کو دوسرے میں مدغم کر دیا تو ایک لازم مشدد رہ گیا اور تعظیماً اللہ کہا گیا ۔ یہ تو تفسیر لفظ «اللہ» کی تھی ۔ اَلرَّحمن اور الرحیم کے معنی «الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کا بیان آئے گا یہ دونوں نام رحمت سے مشتق ہیں ۔ دونوں میں مبالغہ ہے «الرَّحْمٰنِ» میں «الرَّحِیمِ» سے زیادہ مبالغہ ہے ۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے وہ بھی ان معنوں سے متفق ہیں گویا اس پر اتفاق ہے ۔ بعض سلف کی تفسیروں سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے ان معنوں پر مبنی عیسیٰ علیہ السلام کا قول بھی پہلے گزر چکا ہے کہ «الرَّحْمٰنِ» سے مراد دنیا اور آخرت میں رحم کرنے والا اور «الرَّحِیمِ» سے مراد آخرت میں رحم کرنے والا ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ «رحمٰن» مشتق نہیں ہے اگر یہ اس طرح ہوتا تو مرحوم کے ساتھ ملتا ۔ حالانکہ قرآن میں «بِالْمُؤْمِنِینَ رَحِیمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) الخ آیا ہے ۔ مبرد کہتے ہیں «رحمٰن» عبرانی نام ہے عربی نہیں ۔ ابواسحاق زجاج معانی القرآن میں کہتے ہیں کہ احمد بن یحییٰ کا قول ہے کہ «رحیم» عربی لفظ ہے اور «رحمٰن» عبرانی ہے دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے ۔ لیکن ابواسحٰق فرماتے ہیں ” اس قول کو دل نہیں مانتا “ ۔ قرطبی فرماتے ہیں اس لفظ کے مشتق ہونے کی یہ دلیل ہے کہ ترمذی کی صحیح حدیث ہے {رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں رحمٰن ہوں میں نے رحم کو پیدا کیا اور اپنے نام میں سے ہی اس کا نام مشتق کیا ۔ اس کے ملانے والے کو میں ملاؤں گا اور اس کے توڑنے والے کو کاٹ دوں گا} ۲؎ (سنن ترمذی:1908،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اس صریح حدیث کے ہوتے ہوئے مخالفت اور انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ رہا کفار عرب کا اس نام سے انکار کرنا یہ محض ان کی جہالت کا ایک کرشمہ تھا ۔ قرطبی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» اور «رحیم» کے ایک ہی معنی ہیں اور جیسے «نَدْمَانَ» اور «نَدِیمٍ» “ ابوعبید کا بھی یہی خیال ہے ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ «فَعْلَانَ فَعِیلٍ» کی طرح نہیں ۔ «فَعْلَانَ» میں مبالغہ ضروری ہوتا ہے جیسے «غَضْبَانُ» اسی شخص کو کہہ سکتے ہیں ۔ جو بہت ہی غصہ والا ہو اور «فَعِیلٌ» صرف فاعل اور صرف مفعول کے لیے بھی آتا ہے ۔ جو مبالغہ سے خالی ہوتا ہے ۔ ابوعلی فارسی کہتے ہیں کہ ” «رحمٰن» عام اسم ہے جو ہر قسم کی رحمتوں کو شامل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ «رحیم» باعتبار مومنوں کے ہے فرمایا ہے «وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۱؎ (33-الأحزاب:43) ’مومنون کے ساتھ رحیم ہے‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دونوں رحمت و رحم والے ہیں ، ایک میں دوسرے سے زیادہ رحمت و رحم ہے ۔ “ ۱؎ (تفسیر قرطبی:105/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں لفظ «ارق» ہے اس کے معنی خطابی وغیرہ «أَرَقٰ» کرتے ہیں جیسے کہ حدیث میں ہے کہ {اللہ تعالیٰ «رفق» یعنی شفیق اور مہربانی والا ہے وہ ہر کام میں نرمی اور آسانی کو پسند کرتا ہے وہ دوسروں پر نرمی اور آسانی کرنے والے پر وہ نعمتیں مرحمت فرماتا ہے جو سختی کرنے والے پر عطا نہیں فرماتا} ۲؎ ۔ (صحیح مسلم:2593) ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں ” «رحمٰن» اسے کہتے ہیں کہ جب اس سے جو مانگا جائے عطا فرمائے اور «رحیم» وہ ہے کہ جب اس سے نہ مانگا جائے وہ غضبناک ہو ۔ “ ترمذی کی حدیث میں ہے {جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہ مانگے اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوتا ہے} ۳؎ ۔ (سنن ترمذی:3373،قال الشیخ الألبانی:حسن) بعض شاعروں کا قول ہے : « اللہُ یَغْضَبُ إِنْ تَرَکْت سُؤَالَہُ ... وَبُنَیٰ آدَمَ حِینَ یُسْأَلُ یَغْضَبُ» یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتا ہے اور بنی آدم سے مانگو تو وہ بگڑتے ہیں ۔ عزرمی فرماتے ہیں کہ «رحمٰن» کے معنی تمام مخلوق پر رحم کرنے والا اور «رحیم» کے معنی مومنوں پر رحم کرنے والا ہے ۱؎ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:127/1) دیکھئیے قرآن کریم کی دو آیتوں «ثُمَّ اسْتَوَیٰ عَلَی الْعَرْشِ» ۲؎ (25-الفرقان:59) اور «الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ» ۳؎ (20-طہ:5) میں «اسْتَوَیٰ» کے ساتھ «رحمٰن» کا لفظ ذکر کیا تاکہ تمام مخلوق کو یہ لفظ اپنے عام رحم و کرم کے معنی سے شامل ہو سکے اور مومنوں کے ذکر کے ساتھ لفظ «رحیم» فرمایا :«وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا» ۴؎ (33-الأحزاب:43) الخ پس معلوم ہوا کہ «رحمٰن» میں مبالغہ بہ نسبت «رحیم» کے بہت زیادہ ہے ۔ لیکن حدیث کی ایک دعا میں «رَحْمَنَ الدٰنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیمَہُمَاا» ۵؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:5287،موضوع) بھی آیا ہے ۔ «رحمٰن» یہ نام بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ، اس کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں ۔ جیسے کہ فرمان ہے کہ «اللہ» کو پکارو یا «رحمٰن» کو جس نام سے چاہو اسے پکارو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہیں ۔ ایک اور آیت میں ہے : «وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ آلِہَۃً یُعْبَدُونَ» ۶؎ (43-الزخرف:45) یعنی ’ان سے پوچھ لو کہ تجھ سے پہلے ہم نے جو رسول بھیجے تھے کیا انہوں نے «رحمٰن» کے سوا کسی کو معبود کہا تھا کہ ان کی عبادت کی جائے‘ ۔ جب مسیلمہ ، کذاب نے بڑھ چڑھ کر دعوے شروع کئے اور اپنا نام «رحمٰن العیامہ» رکھا تو پروردگار نے اسے بے انتہا رسوا اور برباد کیا ، وہ جھوٹ اور کذب کی علامت مشہور ہو گیا ۔ آج اسے مسیلمہ کذاب کہا جاتا ہے اور ہر جھوٹے دعویدار کو اس کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے ۔ ہر دیہاتی اور شہری ہر کچے پکے گھر والا اسے بخوبی جانتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ «رحیم» میں «رحمٰن» سے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ اس لفظ کے ساتھ اگلے لفظ کی تاکید کی گئی ہے اور تاکید بہ نسبت اس کے کہ جس کی تاکید جائے زیادہ قوی ہوتی ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تاکید ہے ہی نہیں بلکہ یہ تو صفت ہے اور صفت میں یہ قاعدہ نہیں ۔ پس اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا جس نام میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں ، سب سے پہلے اس کی صفت «رحمٰن» بیان کی گئی اور یہ نام رکھنا بھی دوسروں کو ممنوع ہے جیسے فرما دیا کہ «اللہ» کو یا «رحمٰن» کو پکارو جس نام سے چاہو پکارو اس کے لیے اسماء حسنیٰ بہت سارے ہیں ۔ مسیلمہ نے بدترین جرأت کی لیکن برباد ہوا اور اس کے گمراہ ساتھیوں کے سوا اس کی کسی قدر کسی کے دل میں نہ آئی ۔ «رحیم» کے وصف کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے دوسروں کو بھی موصوف کیا ہے ، فرماتا ہے : «لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتٰمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَءُوفٌ رَّحِیمٌ» ۷؎ (9-التوبۃ:128) اس آیت میں اپنے نبی کو رحیم کہا ، اسی طرح اپنے بعض ایسے ناموں سے دوسروں کو بھی اس نے یاد کیا ہے ۔ جیسے آیت «إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نٰطْفَۃٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیعًا بَصِیرًا» ۸؎ (76-الإنسان:2) میں انسان کو «سمیع» اور «بصیر» کہا ہے ۔ حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعض نام تو ایسے ہیں کہ دوسروں پر بھی ہم معنی ہونے کا اطلاق ہو سکتا ہے اور بعض ایسے ہیں کہ نہیں ہو سکتا جیسے «اللہ» اور «رحمٰن» ، «خالق» اور «رزاق» وغیرہ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا پہلا نام اللہ پھر اس کی صفت «رحمٰن» سے کی ۔ اس لیے کہ «رحیم» کی نسبت یہ زیادہ خاص ہے اور زیادہ مشہور ہے ۔ قاعدہ ہے کہ اول سب سے زیادہ بزرگ نام لیا جاتا ہے ، اس لیے سب سے پہلے سب سے زیادہ خاص نام لیا گیا پھر اس سے کم ، پھر اس سے کم ، اگر کہا جائے کہ جب «رحمٰن» میں «رحیم» سے زیادہ مبالغہ موجود ہے پھر اسی پر اکتفا کیوں نہ کیا گیا ؟ تو اس کے جواب میں عطا خراسانی کا یہ قول پیش کیا جا سکتا ہے کہ چونکہ کافروں نے «رحمٰن» کا نام بھی غیروں کا رکھ لیا تھا اس لیے «رحیم» کا لفظ بھی ساتھ لگایا گیا تاکہ کسی قسم کا وہم ہی نہ رہے ۔ «رحمٰن و رحیم» صرف اللہ تعالیٰ ہی کا نام ہے ۔ ابن جریر نے تاہم اس قول کی تصدیق کی ہے ۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانے کے عرب «رحمٰن» سے واقف ہی نہ تھے ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کی آیت «قُلِ ادْعُوا اللہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ أَیًّا مَا تَدْعُوا فَلَہُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَیٰ» ۱؎ (17-الإسراء:110) نازل فرما کر ان کی تردید کی ۔ حدیبیہ والے سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» لکھو تو کفار نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن» اور «رحیم» کو نہیں جانتے ۲؎ ۔ (صحیح بخاری:حدیث2731) بخاری میں یہ روایت موجود ہے ۔ بعض روایتوں میں ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ ہم «رحمٰن یمامہ» کو جانتے ہیں کسی اور «رحمٰن» کو نہیں جانتے ۔ اسی طرح قرآن پاک میں ہے «وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمٰنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُورًا» ۳؎ (25-الفرقان:60) یعنی ’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ «رحمٰن» کے سامنے سجدہ کرو تو وہ حیران زدہ ہو کر جواب دیتے ہیں کہ «رحمٰن» کون ہے ؟ جسے ہم تیرے قول کی وجہ سے سجدہ کریں‘ ۔ درحقیقت یہ بدکار لوگ صرف عناد ، تکبر ، سرکشی اور دشمنی کی بنا پر «رحمٰن» سے انکار کرتے تھے نہ کہ وہ اس نام سے ناآشنا تھے ۔ اس لیے کہ جاہلیت کے زمانے کے پرانے اشعار میں بھی اللہ تعالیٰ کا نام «رحمٰن» موجود ہے جو انہی کے شاعروں کے شعر ہیں ۔ سلامہ اور دوسرے شعراء کے اشعار میں ملاحظہ ہو ۔ تفسیر ابن جریر میں ہے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ «رحمٰن» «فعلان» کے وزن پر رحمت سے ماخوذ ہے اور کلام عرب سے ہے ۔ وہ اللہ رفیق اور رقیق ہے جس پر رحم کرنا چاہے اور جس سے غصے ہو اس سے بہت دور اور اس پر بہت سخت گیر بھی ہے اسی طرح اس کے تمام نام ہیں ۔ حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں «رحمٰن» کا نام دوسروں کے لیے منع ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ کا نام ہے لوگ اس نام پر کوئی حق نہیں رکھتے ۔ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس میں کہ {ہر آیت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرا کرتے تھے} ۴؎ ۔ (سنن ابوداود:4001،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پہلے گزر چکی ہے ۔ اور ایک جماعت اسی طرح «بِسْمِ اللہِ » کو آیت قرار دے کر آیت «الْحَمْدُ» کو الگ پڑھتی ہے اور بعض ملا کر پڑھتے ہیں ۔ «میم» کو دو ساکن جمع ہو جانے کی وجہ سے زیر دیتے ہیں ۔ جمہور کا بھی یہی قول ہے ۔ کوفی کہتے ہیں کہ بعض عرب «میم» کے زیر سے پڑھتے ہیں ، ہمزہ کی حرکت زبر «میم» کو دیتے ہیں ۔ جیسے آیت «الم» * « اللہُ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ الْحَیٰ الْقَیٰومُ» ۵؎ (3-آل عمران:1-2) ابن عطیہ کہتے ہیں کہ زبر کی قرأت کسی سے بھی میرے خیال میں مروی نہیں ۔ آیت «بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ» کی تفسیر ختم ہوئی ۔ اب آگے سنئیے ۔