فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ ۚ أُولَٰئِكَ يَنَالُهُمْ نَصِيبُهُم مِّنَ الْكِتَابِ ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا يَتَوَفَّوْنَهُمْ قَالُوا أَيْنَ مَا كُنتُمْ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالُوا ضَلُّوا عَنَّا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ
پس اس سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کے بارے میں افترا پردازی (26) کرے، یا اس کی آیتوں کو جھٹلائے، لوح محفوظ میں نے نصیب کا جو لکھا ہے وہ انہیں مل جائے گا، یہاں تک کہ ہمارے فرشتے جب ان کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لیے آئیں گے تو پوچھیں گے، کہاں ہیں وہ جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے تھے؟ وہ کہیں گے کہ وہ سب ہمیں چھوڑ کر غائب ہوگئے، اور اقرار کریں گے کہ وہ یقیناً کافر تھے
فہم القرآن : ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والوں کے ساتھ ان لوگوں کا انجام بھی بیان کردیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ جھوٹ باندھتے ہیں۔ گویا کہ یہ اللہ تعالیٰ کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ قرآن مجید میں ﴿اِفْتَرَیٰ عَلَی اللّٰہِ ﴾کے الفاظ مختلف موقعوں پر 9دفعہ استعمال ہوئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا۔ 2۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تکذیب کرنا۔ 3۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے دین کے حوالے سے جھوٹ بولنا۔ 4۔ اپنے آپ پر وحی نازل ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرنا۔ 5۔ حق بات کو جھٹلانا۔ 6۔ نبی کی نبوت کا انکار کرنا۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے سے مراد یہاں اس کی ذات اور صفات میں شرک کرنا ہے۔ مشرک کا یہ عقیدہ ہوتا ہے یہ مورتیاں اللہ تعالیٰ کا اوتار ہیں اور مزارات میں دفن بزرگ اللہ کے مقرب بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ یہ عقیدہ من گھڑت اور بلا دلیل ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ پرجھوٹ بولنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے فرشتے ان کی موت کے وقت ان سے سوال کرکے سزا دیں گے۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر افترأ بازی کرتے اور اس کی آیات کو جھٹلاتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جو سزا بیان کی گئی ہے وہ ہر صورت دنیا اور آخرت میں ان کو مل کر رہے گی۔ بعض مفسرین نے کتاب میں حصہ ملنے سے مراد لوح محفوظ میں لکھی ہوئی تقدیر لی ہے جو اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ رکھی ہے۔ جس میں دوسری تفصیلات کے ساتھ یہ بھی درج ہے کہ انسان جوکرے گا وہی بھرے گا مجرموں کو عذاب صرف آخرت میں نہیں بلکہ موت کے لمحات سے شروع ہوجاتا ہے۔ روح نکالنے والے فرشتے ان سے سوال کرتے ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنے کے ساتھ انہیں حاجت روا، مشکل کشا کیوں سمجھتے تھے دوسرے لفظوں میں ملائکہ ان سے کہیں گے کہ اگر وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں تو اپنے مشکل کشاؤں کو بلاؤ۔ جس کے جواب میں وہ موت کے وقت زبان حال اور قیامت کے دن بول، بول کرکہیں گے کہ آج تو ان میں سے ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ اس طرح ظالم اپنی موت کے وقت اور قیامت کے دن اقرار کریں گے کہ واقعی ہم اللہ کی ذات کا انکار اور اس کی آیات کا کفر کرتے تھے لیکن یہ اقرار انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ ” حضرت برا بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں ہم نبی مکرم (ﷺ) کے ساتھ انصار کے کسی آدمی کے جنازہ کے لیے نکلے ہم قبرستان پہنچے تو ابھی قبر کھودی نہیں گئی تھی۔ رسول اکرم (ﷺ) بیٹھ گئے تو ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے جیسے ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، رسول اللہ (ﷺ) کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی آپ اس کے ساتھ زمین کرید رہے تھے آپ نے سر اٹھاتے ہوئے دو یا تین مرتبہ فرمایا قبر کے عذاب سے پناہ مانگو پھر فرمایا۔۔ جب کافر دنیا کو چھوڑ کر آخرت کی طرف جا رہا ہوتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے آتے ہیں ان کے ہاتھ میں بدبودار بوری ہوتی ہے وہ حد نگاہ تک اس کے پاس بیٹھ جاتے ہیں، پھر اس کے پاس ملک الموت آتا ہے یہاں تک کہ اس کے سر کے پاس بیٹھ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اے خبیث نفس! اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور غضب کی طرف چل۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا وہ اس کی روح کو اس طرح نکالتے ہیں جس طرح گرم سلائی کو روئی سے نکالا جاتا ہے وہ اس کو نکال کر اس تھیلے میں ڈالتے ہیں اس سے اتنی بدبو نکلتی ہے جس طرح زمین سے لاش کی گندی بدبو نکلتی ہے وہ اس کو لے کر آسمانوں کی طرف بڑھتے ہیں وہ فرشتوں کے جس گروہ کے پاس سے گزرتے ہیں وہ کہتے ہیں یہ خبیث روح کون سی ہے وہ کہتے ہیں یہ فلاں بن فلاں ہے۔ اس کے برے نام لے کر اس کو بلاتے ہیں یہاں تک کہ وہ آسمان دنیا تک پہنچتے ہیں وہ اس کو کھلوانا چاہتے ہیں مگر اسے کھولا نہیں جاتا، پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی :” ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ سوئی کے سوراخ میں اونٹ داخل ہوجائے۔“ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے لیے سجین یعنی زمین کی تہہ میں ٹھکانا لکھو۔ پھر اس کی روح کو نیچے پھینک دیا جاتا ہے پھر نبی معظم (ﷺ) نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی ” جو اللہ کے ساتھ شرک کرے گا گویا کہ وہ آسمان سے گرا اور اسے پرندے اچک لیں یا اس کو ہوائیں کسی دور دراز مقام پر پھینک دیں“ پھر اس روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے اور اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں جو اس کو بٹھاتے ہیں وہ اس سے کہتے ہیں کہ تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں تیرا دین کیا ہے وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا، پھر فرشتے کہتے ہیں یہ شخص کون ہے جو تم لوگوں میں نبی مبعوث کیا گیا ؟ وہ کہتا ہے ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ تو آسمانوں سے آواز دینے والا آواز دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس کا بچھونا آگ کا بنا دو اور آگ کا دروازہ اس کی طرف کھول دو۔ اس کے پاس اس آگ کی گرمی اور بدبو آتی ہے اس پر اس کی قبر تنگ کردی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں اور اس کے پاس بدصورت گندے کپڑے اور بدبو دار جسم کے ساتھ آدمی آتا ہے تو وہ کہتا ہے آج خوش ہوجا تجھے حسب وعدہ رسوا کیا جائے وہ پوچھتا ہے تو کون ہے اس طرح کی شکل والا جو اتنی بری بات کے ساتھ آیا ہے وہ کہے گا میں تیرا برا عمل ہوں وہ کہے گا اے میرے رب کبھی قیامت نہ قائم کرنا۔“ [مسند احمد] مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے یا اس کی ذات کے بارے میں جھوٹ گھڑنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔ 2۔ ظالموں کو اللہ کی کتاب کے مطابق سزا دی جائے گی۔ 3۔ اللہ تعالیٰ کے ذمے جھوٹی بات لگانے والا اپنی موت کے وقت اپنے ظلم اور کفر کا اقرار کرتا ہے۔ 4۔ مشرک اپنی موت کے وقت اقرار کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا نہیں۔ تفسیر بالقرآن : ظالم کون؟ 1۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانے والا ظالم ہے۔ (الانعام :21) 2۔ شرک کرنے والا ظالم ہے۔ (لقمان :13) 3۔ اللہ کی مسجدوں سے روکنے اور ان میں خرابی پیدا کرنے والا ظالم ہے۔ (البقرۃ:114) 4۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے والا ظالم ہے۔ (الزمر :32) 5۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔ (آل عمران :57)