وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اور ہر گروہ کی (اللہ کے علم میں) ایک میعاد متعین (24) ہے، جب ان کا وہ وقت آجاتا ہے تو ایک گھڑی نہ پیچھے ہوتے ہیں نہ آگے
فہم القرآن : ربط کلام : بے حیائی کا ارتکاب، جان بوجھ کر گناہ کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا اور شریعت کے نام پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ جھوٹ لگانے والوں کو انتباہ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر ذی روح اور چیز کی موت اور فنا کا وقت مقرر کر رکھا ہے جب وقت آئے گا تو اس میں لمحہ بھر تقدیم وتاخیر نہیں ہوگی۔ یہی اصول قوموں اور امتوں کے لیے مقرر کیا گیا ہے جب کسی قوم کے زوال اور تباہی کا وقت آتا ہے تو پھر اس کے اڑوس پڑوس کی اقوام اور خیر خواہ اسے ہرگز نہیں بچا سکتے۔ افراد اور اقوام کی اجل یعنی موت میں فرق یہ ہے کہ افراد کی عمر اور مدت کے لیے سال، مہینے، ایام اور لمحے مقرر کیے گئے ہیں اور لوگ انھی کو شمار کرتے ہیں جب یہ مدت پوری ہوجائے تو انسان لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔ عام طور پر قوموں اور امتوں کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہوتا ہے ان کی موت، ایمان، اخلاق اور کردار کے حوالے سے واقع ہوتی ہے۔ بدکردار اور بے عمل قوم کی جگہ دوسری قوم لے لیتی ہے۔ بسا اوقات اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے پوری کی پوری قوم کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جس طرح قوم نوح، عاد، ثمود اور قوم لوط کے واقعات اس کی دلیل ہیں۔ تاہم جب کوئی قوم یا علاقے کے افراد برائی کے اس درجے کو پہنچ جائیں جس سے اس خطے کا نظام بگڑنے کے قریب پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کی جگہ دوسری قوم کو مسلط کردیتا ہے۔ اس حقیقت کو سورۃ البقرۃ، آیت 251اور 252میں بیان کرتے ہوئے ظالم قوم کی تبدیلی کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور اپنی قدرت کی نشانی قرار دیا ہے اور سورۃ محمد میں فرمایا اگر تم اللہ تعالیٰ کے احکام سے منہ پھیروگے تو وہ تمہاری جگہ دوسری قوم کو لے آئے گا جو تم جیسے نہیں ہوں گے۔ یہاں قوموں کے زوال اور ان کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اجل اور ساعت کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اجل سے مراد موت کا فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں قوم کی موت یا زوال کی گھڑی متعین ہے۔ جب وہ گھڑی اپنے وقت کو پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوجاتا ہے جس کے صدور میں لشکر وسپاہ، قوم کی شان وشکوہ، مادی اور عسکری وسائل رکاوٹ نہیں بن سکتے۔ اسی حقیقت کو یہاں بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی امت کی مقررہ گھڑی آجاتی ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لیے آگاپیچھا نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہی فرد کی موت کا معاملہ ہے جب موت کا وقت آن پہنچے تو ولی کی ولایت، صابر کا صبر موت کو ٹال نہیں سکتا۔ (یونس :49) موت کا نقشہ : (عَنْ عَبْدِ اللَّہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِیُّ (ﷺ) خَطًّا مُرَبَّعًا، وَخَطَّ خَطًّا فِی الْوَسَطِ خَارِجًا مِنْہُ، وَخَطَّ خُطُطًا صِغَارًا إِلَی ہَذَا الَّذِی فِی الْوَسَطِ، مِنْ جَانِبِہِ الَّذِی فِی الْوَسَطِ وَقَالَ ہَذَا الإِنْسَانُ، وَہَذَا أَجَلُہُ مُحِیطٌ بِہِ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہِ وَہَذَا الَّذِی ہُوَ خَارِجٌ أَمَلُہُ، وَہَذِہِ الْخُطُطُ الصِّغَارُ الأَعْرَاضُ، فَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا، وَإِنْ أَخْطَأَہُ ہَذَا نَہَشَہُ ہَذَا )[ رواہ البخاری : باب فِی الأَمَلِ وَطُولِہِ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (ﷺ) نے مربع کی صورت بنائی اور اس کے درمیان ایک خط کھینچا جو مربع سے باہر نکل رہا تھا اور کچھ چھوٹے چھوٹے خط اس کے دائیں بائیں کھینچے درمیان والی لکیر پر انگلی رکھ کر فرمایا یہ انسان ہے اور اس کو چاروں طرف سے اجل گھیرے ہوئے ہے۔ باہر نکلنے والا خط اس کی امید ہے اور چھوٹے چھوٹے خط اس کی خواہشات ہیں ایک خواہش ختم ہوتی ہے تو دوسری آ گھیرتی ہے۔“ مسائل : 1۔ امتوں کے عروج وزوال فنا اور بقا کا وقت مقرر ہے۔ 2۔ قوم اور کسی فردکی تقدیر کے فیصلے کا وقت آتا ہے تو اس میں لمحہ بھر کے لییتقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ تفسیر بالقرآن : ہر چیز کا وقت مقرر ہے : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا وقت مقرر کیا ہے۔ (الاعراف :185) 2۔ تمام لوگوں کے لیے وقت مقرر ہے۔ (الانعام :2) 3۔ چاند اور سورج کا بھی وقت مقرر ہے۔ (الرعد :2) 4۔ گناہگاروں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دی جاتی ہے۔ (النحل :61) 5۔ زمین و آسمان کے لیے بھی وقت مقرر ہے۔ (الروم :8) 6۔ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کسی کو لمحہ بھر بھی مہلت نہیں دے گا۔ (المنافقون :11)