يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
اے آدم کی اولاد ! تم لوگ ہر نماز کے وقت اپنا اچھا لباس (20) استعمال کرو، اور کھاؤ اور پیو اور حد سے تجاوز (21) نہ کرو، بے شک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ہے
فہم القرآن : ربط کلام : مکہ کے مشرک بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے اس سے منع کرتے ہوئے تمام انسانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیت اللہ اور مساجد میں ننگا آنے کی بجائے لباس پہنا کریں۔ مشرک اور بےدین لوگوں کی زمانہ قدیم سے عادت رہی ہے کہ وہ ننگے ہو کر عبادت کرنے کو ترک دنیا اور لِلّھیت تصور کرتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ تو سراپا برہنہ ہوتے اور کچھ صرف لنگوٹی کا ستعمال کرتے ہیں جس طرح کہ ہندوستان کے سب سے بڑے لیڈر مہاتماگاندھی اکثر لنگوٹی پہنا کرتے تھے اور آج بھی کئی پنڈت اور گوتم بدھ کے ماننے والے اپنی شرم گاہ کو ڈھانپنے کے سوا ننگا رہنا رہبانیت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں میں صوفی لوگ برہنہ تو نہیں ہوتے تاہم ناقص اور گندا لباس پہننے کو نیکی تصور کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے مزارات پر نیم برہنہ لوگ سرعام پھرتے دکھائی دیتے ہیں اسلام نے نہ صرف تارک الدنیا ہونے کی مذمت کی ہے بلکہ دین اسلام نے بلاشرعی عذر اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھانے کو گناہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح وسائل ہونے کے باوجود جو شخص مناسب لباس نہیں پہنتا شریعت نے اسے بھی پسند نہیں کیا۔ کیونکہ جہالت کی بنیاد پر لوگ بیت اللہ اور عبادت گاہوں میں برہنہ آتے تھے اس لیے بالخصوص حکم دیا ہے کہ جب بھی مسجد میں آؤ تو پاک جسم اور اچھا لباس پہنا کرو اس سے پہلے ”القسط“ کا حکم دیا گیا تھا جس کا معنیٰ افراط وتفریط سے بچنا اور ہر معاملہ میں عدل وانصاف اور توازن قائم رکھنا ہے لہذا عبادات، ملبوسات، اور کھانے پینے میں بھی اعتدال اور توازن ہونا چاہیے اس لیے ہر قسم کے اسراف سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ صفت بھی بیان کی ہے وہ خرچ کرتے ہوئے نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ اعتدال کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ (فرقان :67) (عَنْ أَبِی الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ أَتَی النَّبِیَّ (ﷺ) فِی ثَوْبٍ دُونٍ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیُّ (ﷺ) أَلَکَ مَالٌ قَالَ نَعَمْ مِنْ کُلِّ الْمَالِ قَالَ مِنْ أَیِّ الْمَالِ قَالَ قَدْ آتَانِی اللّٰہُ مِنْ الْإِبِلِ وَالْغَنَمِ وَالْخَیْلِ وَالرَّقِیقِ قَالَ فَإِذَا آتَاک اللّٰہُ مَالًا فَلْیُرَ عَلَیْکَ أَثَرُ نِعْمَۃِ اللّٰہِ وَکَرَامَتِہٖ)[ رواہ النسائی : کتاب الزینۃ، باب الجلاجل ] ” حضرت ابو الاحوص اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ بلاشبہ وہ نبی اکرم (ﷺ) کے پاس بالکل معمولی کپڑوں میں آئے تو انھیں اللہ کے نبی (ﷺ) نے فرمایا کیا تمھارے پاس مال ہے انھوں نے کہا ہاں ہر طرح کا مال ہے نبی معظم (ﷺ) نے پوچھا کون کون سا ؟ میرے والد نے کہا اللہ نے اونٹ، بکریاں، گھوڑے، غلام اور لونڈیاں بھی دی ہیں۔ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمھیں مال دیا ہے تو تم پر اس کی نعمت اور فضل کے آثار بھی دیکھے جانے چاہییں۔“ (عَنْ عُمَرَ بْنَ أَبِی سَلَمَۃَ (رض) یَقُولُ کُنْتُ غُلَامًا فِی حَجْرِ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) وَکَانَتْ یَدِی تَطِیشُ فِی الصَّحْفَۃِ فَقَالَ لِی رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَا غُلَامُ سَمِّ اللّٰہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِی بَعْدُ) [ رواہ البخاری، کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام] ” حضرت عمر بن ابو سلمہ (رض) کہتے ہیں میں رسول معظم (ﷺ) کے ہاں گود میں بچہ تھا اور میرا ہاتھ کھانے کے دوران برتن میں گھوم رہا تھا مجھے رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا اے بچے کھانا اللہ کے نام سے شروع کرو۔ دائیں ہاتھ اور اپنے آگے سے کھاؤ اس کے بعد میں ہمیشہ کھانا اسی طرح کھاتا ہوں۔“ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) أَنَّ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) قَالَ إِذَا أَکَلَ أَحَدُکُمْ فَلْیَذْکُرْ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَإِنْ نَسِیَ أَنْ یَذْکُرَ اسْمَ اللّٰہِ تَعَالٰی فِی أَوَّلِہٖ فَلْیَقُلْ بِسْمِ اللّٰہِ أَوَّلَہٗ وَآخِرَہٗ) [ رواہ ابوداؤد والترمذی : کتاب الأطعمۃ، باب التسمیۃ علی الطعام] ” حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ بلاشبہ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی کھانا کھانے لگے تو بسم اللہ پڑھ لے اگر اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اسے چاہیے کہ کہے اللہ کے نام سے ہی ابتدا اور انتہا کرتا ہوں۔“ (عَنْ مِقْدَامِ بْنِ مَعْدِی کَرِبَ (رض) قَالَ سَمِعْتُ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) یَقُولُ مَا مَلَأَ آدَمِیٌّ وِعَاءً شَرًّا مِنْ بَطْنٍ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہُ فَإِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ) [ رواہ احمد والترمذی : کتاب الزھد، باب ماجاء فی کراھیۃ کثرۃ الأکل] ” حضرت مقدام بن معدیکرب (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول معظم (ﷺ) سے سنا آپ نے فرمایا کسی بھی برتن کا بھرنا آدمی کے پیٹ سے بھرنے سے برا نہیں۔ ابن آدم کی کمر کو سیدھا رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں اگر اس طرح گزارہ نہ ہو تو ایک حصہ کھانے، ایک حصہ پینے اور ایک حصہ سانس لینے کے لیے ہونا چاہیے۔“ مسائل : 1۔ مساجد میں آتے ہوئے اچھا لباس پہننا چاہیے۔ 2۔ رہنے سہنے اور کھانے پینے میں اعتدال ہونا چاہیے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اسراف کو ہرگز پسند نہیں کرتا ہے۔