قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
آپ کہئے کہ میرے رب نے تو انصاف (18) (یعنی توحید) کا حکم دیا ہے، اور کہا ہے کہ تم لوگ ہر نماز کے وقت اپنے چہرے قبلہ کی طرف کرلو، اور عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرتے رہو اسی کو پکارو، جیسا کہ اس نے تمہیں پہلی بار پیدا (19) کیا تھا (مرنے کے بعد) دوبارہ اسی حال میں لوٹا دئیے جاؤ گے
فہم القرآن : ربط کلام : بعض مشرکین بیت اللہ میں برہنہ طواف کرتے تھے انہیں اس حرکت سے روکا جاتا تو وہ کہتے اس طرح کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ یہ پرلے درجے کی بے انصافی کی بات ہے۔ اس کی نفی کرنے کے ساتھ یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ بے حیائی کا حکم دینے کی بجائے حیاداری کا حکم دیتا ہے۔ مشرکین نے برہنہ طواف کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر رکھا تھا اس کے جواب میں انہیں یہ کہا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جس کا علم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ باطل مذاہب کی شروع سے یہ روش رہی ہے کہ وہ اپنے فرسودہ نظریات کو صحیح ثابت کرنے کے لیے انہیں دین کا لبادہ پہناتے ہیں تاکہ عوام الناس ثواب سمجھ کر ان رسومات کی پیروی کریں۔ باطل مذہب کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ تضادات کا مجموعہ ہوتا ہے اس میں ہر قسم کی افراط وتفریط پائی جاتی ہے اس کے مقابلہ میں آسمانی دین اعتدال پر قائم ہوتا ہے جس میں کسی قسم کی افراط وتفریط نہیں ہوتی۔ اس لیے یہاں نبی اکرم (ﷺ) کو حکماً فرمایا جارہا ہے کہ آپ اعلان فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ” القسط“ پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ اہل لغت اور مفسرین نے قسط کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھا ہے اس سے مراد اللہ کی توحید پر پختگی اختیار کرنا اور ” فکروعمل میں اعتدال قائم کرنا ہے“ یاد رہے کہ سارے کا سارا دین القسط کے اصول پر قائم ہے۔ سورۃ الرحمان، آیت : 9میں ماپ تول میں قسط کا حکم دیا ہے اور سورۃ الحجرات، آیت : 9میں ہر معاملے میں قسط یعنی ہر قسم کی افراط و تفریط سے بچ کر عدل وانصاف پر قائم رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہاں مسجد سے مراد مفسرین نے سجدہ لیا ہے کیونکہ مسجد عبادت کے لیے ہی بنائی جاتی ہے۔ سجدہ نماز میں انتہائی عاجزی اور انکساری کی علامت ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری کی پوری نماز اور ہر قسم کی عبادت اللہ ہی کے لیے خاص ہونی چاہیے۔ اس بنا پر حقیقتاً مسجد وہی ہوگی جس کی بنیاد تقویٰ اور لِلّٰھیت پر رکھی گئی ہو۔ سورۃ الجن، آیت : 18میں یہی ارشاد ہوا ہے کہ مساجد اللہ ہی کے لیے ہونی چاہییں اور اس میں خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنی چاہیے اسی کی وضاحت کرتے ہوئے مسجد کے ذکر کے بعد حکم دیا ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کے دین کے تابع کرتے ہوئے خالص اپنے رب کی عبادت کرو۔ کیونکہ اس نے ہی تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہیں اسی کی طرف لوٹایاجانا ہے۔ جس کی یہ بھی تفسیر کی گئی ہے کہ جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگا پیدا ہوتا ہے اسی طرح قیامت کے دن لوگ برہنہ اٹھائے جائیں گے۔ (عَنْ عَائِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ رَسُول اللّٰہِ (ﷺ) تُحْشَرُونَ حُفَاۃً عُرَاۃً غُرْلًا قَالَتْ عَائِشَۃُ فَقُلْتُ یَا رَسُول اللّٰہِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ یَنْظُرُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ فَقَالَ الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ یُہِمَّہُمْ ذَاکَ)[ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب کیف الحشر] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں رسول معظم (ﷺ) نے فرمایا تم ننگے پاؤں، ننگے بدن اور بغیر ختنے کے جمع کیے جاؤ گے حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول! کیا مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف نہیں دیکھیں گے ؟ نبی اکرم (ﷺ) نے فرمایا اس دن معاملہ اس قدر شدید ہوگا کہ انھیں اس کا خیال بھی نہیں آئے گا۔“ مسائل : 1۔ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملہ میں القسط یعنی عدل وانصاف پر قائم رہنے کا حکم دیا ہے۔ 2۔ مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے دین کے تابع ہونا چاہیے۔ 3۔ عبادت خالص اللہ کے لیے ہی ہونی چاہیے۔ 4۔ انسان ننگے بدن پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن بھی لوگ ننگے اٹھائے جائیں گے۔ تفسیر بالقرآن : دین میں اخلاص کی اہمیت : 1۔ نبی اکرم (ﷺ) کو اخلاص کا حکم۔ (الزمر : 2، 11) 2۔ پوری امت کو اخلاص کا حکم۔ (غافر :14) 3۔ پہلی امتوں کو بھی اخلاص کا حکم۔ (البینۃ:5) 4۔ مشرکین بھی مشکل کے وقت خالصتاً اللہ تعالیٰ کے پکارتے تھے۔ (یونس :22) 5۔ مخلص لوگ شیطان کی چالوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ (الحجر :40) 6۔ اللہ کے عذاب سے اخلاص والے بندے محفوظ رہتے ہیں۔ (الصٰفٰت :74)