اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
(مسلمانو !) تمہارے رب کی جانب سے جو کچھ تم پر اتار (3) گیا ہے اس کی پیروی کر، اور اللہ کے سوا دوسرے دوستوں اور مددگاروں کی پیروی نہ کرو، تم لوگ بہت ہی کم نصیحت قبول کرتے ہو
فہم القرآن : ربط کلام : ہدایت کے متلاشی لوگوں کے لیے نہایت ہی لازم بات ہے کہ وہ ادھر ادھر سے راہنمائی لینے کی بجائے صرف اور صرف قرآن مجیدکی اتباع کریں۔ قرآن مجید کے انتباہ سے ڈرنے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آدمی اس بات کی پیروی کرے جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل فرمائی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر انسان کا نہ کوئی خیر خواہ ہوسکتا ہے اور نہ اس کے کاموں کا والی اور ذمہ دار بن سکتا ہے۔ اولیاء ولی کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے دوست اور خیر خواہ۔ یہ لفظ لاکر انسان کی اس فطری کمزوری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس بناء پر آدمی کسی سے دھوکا کھاتا ہے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) بھی اس فطری کمزوری کی بناء پر شیطان سے دھوکا کھاگئے۔ جب شیطان نے ان کے قریب آکر باربار قسمیں کھا کر کہا کہ جناب آدم ! میں خیرخواہی کے لیے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اس درخت کا پھل کھالیں تاکہ ہمیشہ جنت میں رہ سکیں۔ اللہ تعالیٰ کلی علم رکھنے والا ہے اس کو معلوم تھا اور ہے کہ شیطان ان لوگوں کو اولیاء کے نام پر گمراہ کرے گا لہٰذا حکم دیا کہ اولیاء کی پیروی نہ کرنا۔ بے شک اولیاء کا اللہ کے ہاں ایک مرتبہ اور مقام ہے ہمارے لیے ان کا احترام ومقام لازم ہے لیکن دین اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول حضرت محمد (ﷺ) پر نازل کیا ہے نہ کہ اولیاء پر۔ اس لیے اتباع صرف اور صرف نبی محترم (ﷺ) کی ہوگی کیونکہ آپ پر رب کا قرآن نازل ہوا۔ یہاں انسانوں کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ بہت قلیل لوگ ہیں جو اس اصول کا خیال رکھتے ہوئے صرف وحی الٰہی کی پیروی کرتے ہیں۔ اس اصول کو چھوڑنے اور محبت میں غلو کا نتیجہ تھا اور ہے کہ امت پہلے آئمہ کرام کے نام پرچار فرقوں میں تقسیم ہوئی اور پھر ہر فرقے کے کئی کئی گروہ وجود میں آئے اور آتے جا رہے ہیں صرف ایک فرقہ کا حال دیکھیں پہلے امام ابوحنیفہ (رض) کی نسبت سے حنفی کہلائے اور اس کے بعد سہروردی، چشتی، قادری، نقشبندی، نظامی، گیلانی اور جیلانی۔ نہ معلوم یہ سلسلہ کہاں تک پہنچا اور پہنچ جائے گا۔ ایسے بھائیوں کو قرآن و حدیث کا حوالہ پیش کیا جائے تو فوراً کہتے ہیں کہ کیا امام صاحب کو یہ حدیث یاد نہ تھی۔ کیا تم بزرگوں سے زیادہ قرآن و حدیث سمجھنے والے ہو۔ کچھ لوگ اس سے آگے بڑھ کر بات کرتے ہیں کہ کیا پہلے بزرگ گمراہ تھے ؟ نعوذ باللہ من ذالک۔ حالانکہ یہ حضرات غور کریں تو ان کا رویہ خود آئمہ کرام کی توہین کے مترادف ہے۔ اگر واقعتا امام موصوف کو زیر بحث مسئلہ کا علم تھا تو، پھر انھوں نے اس پر عمل کیوں نہ کیا۔ کیا اس میں امام صاحب کی توہین ہے یا تکریم ؟ جہاں تک اولیاء اللہ کا مقام اور احترام ہے اس کا خیال رکھنا ہمارے لیے فرض ہے۔ لیکن دین اللہ اور اس کے رسول کے فرمان کا نام ہے۔ مسلمان کو صرف قرآن و سنت کی پیروی کا حکم ہے۔ مسائل : 1۔ قرآن و سنت کی ہی پیروی کرنی چاہیے۔ 2۔ قرآن و حدیث کے علاوہ باقی تمام راستے گمراہی کے ہیں۔ 3۔ گمراہ لوگوں کی اکثریت سے متاثر نہیں ہونا چاہے۔ تفسیر بالقرآن: نبی اکرم (ﷺ) وحی کے پابند تھے : 1۔ آپ (ﷺ) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (الاحزاب :2) 2۔ میں اتباع کرتا ہوں اس کی جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (الاحقاف :9) 3۔ مجھے قرآن وحی کے ذریعہ دیا گیا ہے تاکہ میں تمھیں ڈراؤں۔ (الانعام :19) 4۔ نبی (ﷺ) اپنی مرضی سے بات نہیں کرتے مگر آپ کو جو وحی کی جاتی ہے۔ (النجم : 3تا4) 5۔ میں تو اسی بات کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی گئی ہے۔ (یونس : 15۔ الاعراف :203) 6۔ آپ (ﷺ) اپنے رب کی وحی کی اتباع کریں۔ (یونس :109)