سورة الاعراف - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے

تفسیر فہم القرآن - میاں محمد جمیل ایم اے

سورۃ الاعراف کا تعارف : سورۃ الاعراف 206آیات اور 24رکوع پر مشتمل ہے مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پانچ چھ آیات کو چھوڑ کر باقی تمام کی تمام آیات مکہ معظمہ میں نازل ہوئیں اس کے مضامین، اسلوب بیان سورۃ الانعام سے زیادہ مشابہت رکھتے ہے۔ ” سورۃ البقرۃ“ میں دیگرادیان کے حاملین کے ساتھ یہودیوں کو زیادہ مخاطب کیا گیا ہے اور ” آل عمران“ میں دوسروں کی نسبت عیسائیوں کو کثرت کے ساتھ خطاب کیا ہے ” سورۃ الانعام“ اور ” سورۃ الاعراف“ میں اہل مکہ اور باقی مشرکین کی طرف زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس سورۃ کے پہلے رکوع میں قرآن مجید کا تعارف کرواتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اے نبی (ﷺ) ! قرآن کے بارے میں آپ کو اپنے دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ اس میں منکروں کے لیے انتباہ اور ماننے والوں کے لیے خیرخواہانہ نصیحت پائی جاتی ہے۔ اس لیے مومنوں کو صرف اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے رب کی نازل کردہ ہدایت کی اتباع کریں۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی بزرگ، ولی اور خیرخواہ کی بات کو اللہ تعالیٰ کے فرمان سے مقدم نہیں جاننا چاہیے لیکن کھلی اور واضح ہدایت کے باوجود تھوڑے لوگ ہیں جو قرآن کی اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں۔ اس کے بعد نافرمان اقوام کا انجام بیان کرتے ہوئے وضاحت فرمائی ہے کہ قیامت کے روز ہر کسی کے اعمال کو عدل کے ترازو میں رکھ کر تولا جائے گا۔ جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوا وہ کامیاب ہوگا اور جس کی نیکیوں کے مقابلے میں گناہ بھاری رہے وہ ہمیشہ کے لیے ذلت ورسوائی سے دوچار ہوں گے، پھر واضح کردیا کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کرام (علیہ السلام) سے ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے سوال کریں گے اور ان کی دعوت کے مقابلہ میں جن لوگوں نے انکار اور انحراف کارویہ اختیار کیا ان کا پوری طرح احتساب کیا جائے گا۔ اس کے بعد انسان اور شیطان کی جبلت کا فرق بیان کرکے ان کی آپس میں ازلی اور ابدی کشمکش کا ذکر کیا ہے جس میں واضح اشارہ ہے کہ انسان وہ ہے جو اپنے باپ آدم (علیہ السلام) کی اتباع میں غلطی کا اعتراف کرکے اپنے رب سے معذرت خواہ رہے اور شیطان وہ ہے جو غلطی کرنے کے بعد اس کا جواز پیش کرکے اس پر اڑ جائے بے شک وہ جنات میں سے ہو یا بنی نوع انسان سے۔ کچھ ضمنی مسائل بیان کرنے کے بعد آیت 40میں دو اور دو چار کی طرح واضح کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے شیطان کی طرح تکبر کیا ان کا جنت میں داخل ہونا اس طرح ہی محال ہے جس طرح اونٹ کا سوئی کے سوراخ میں سے گزرنا محال ہے۔ اس کے ساتھ جنتیوں کے جنت میں جانے کے بعد اور جہنمیوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد ان کی آپس میں ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ نیکوں اور بروں میں کیا فرق ہوگا۔ جہنمیوں کا اقرار جرم انھیں کچھ فائدہ نہ دے گا۔ جو انسان دنیا میں اپنے گناہوں کا اقرار کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے اور اپنے باپ حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح رب کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائے۔ پھر توحید کے ٹھوس دلائل دے کر توحید کو ٹھکرانے والی قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود، قوم لوط، قوم مدین اور قوم فرعون کے کردار کا تفصیلی تذکرہ کرکے ان کا عبرت ناک انجام بیان کیا ہے تاکہ ان کے بعد آنے والے لوگ اس کردار اور انجام سے بچ جائیں۔ سورۃ کی 172آیت میں اس عہد کا ذکر کیا جو آدم اور اس کی اولاد سے روز آفرنیش لیا گیا تھا جس میں ذکر ہے کہ اچھی طرح غور کرلو کہ میں تمھارا رب ہوں یا نہیں ؟ تمام بنی نوع انسان نے ذات کبریا کی توحید کا اقرار کیا کہ کیوں نہیں تیرے سوا کون ہمارا رب ہوسکتا ہے۔ اس اقرار کے بعد فرمایا گیا۔ اب تمھارا یہ بہانہ نہیں چلے گا کہ ہمارے آباؤ اجداد شرک کرتے رہے جن کی وجہ سے ہم اس سنگین جرم کے مجرم بنے۔ سورۃ کا اختتام ان آیات پر ہوا کہ اگر شیطان تمھیں پھسلانے کی کوشش کرے تو اس سے اپنے رب کی پناہ طلب کرو اور جس طرح اللہ کا حکم سمجھ کر ملائکہ نے عاجزی اختیار کی اس طرح تم بھی اپنے رب کے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے اسی کی ذات اور فرمان کے سامنے جھک کر زندگی گزارو یہی اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہے۔